بسنت اور ہولی کی بہار
ساقی کچھ آج تجھ کو خبر ہے بسنت کی
ہر سو بہار پیش نظر ہے بسنت کی
سرسوں جو پھول اٹھی ہے چشم قیاس میں
پھولے پھلے شامل ہیں بسنتی لباس میں
پتے جو زرد زرد ہیں سونے کے پات ہیں
صدبرگ سے طلائی کرن پھول مات ہیں
ہیں چوڑیوں کی جوڑ بسنتی کلائی میں
بن کے بہار آئی ہے دست حنائی میں
مستی بھرے دلوں کی امنگیں نہ پوچھیے
کیا منطقیں ہیں کیا ہیں ترنگیں نہ پوچھئے
ماتھے پہ حسن خیز ہے جلوہ گلال کا
بندی سے اوج پر ہے ستارہ جمال کا
گیندوں سے مائل گل بازی حسین ہیں
سر کے ابھار پر سے دوپٹے مہین ہیں
عکس نقاب زینت رخسار ہو گیا
زیور جو سیم کا تھا طلا کار ہو گیا
سرسوں کے لہلہاتے ہیں کھیت اس بہار میں
نرگس کے پھول پھول اٹھے لالہ زار میں
آواز ہے پپیہوں کی مستی بھری ہوئی
طوطی کے بول سن کے طبیعت ہری ہوئی
کوئل کے جوڑے کرتے ہیں چہلیں سرور سے
آتے ہیں تان اڑاتے ہوئے دور دور سے
بور آم کے ہیں یوں چمن کائنات میں
موتی کے جیسے گچھے ہوں زر کار پات میں
بھیروں کی گونج مست ہے ہر کشت زار میں
بنسی بجاتے کشن ہے گویا بہار میں
کیسر کسوم کی خوب دل افزا بہار ہے
گیندوں کی ہر چمن میں دو رویہ قطار ہے
اک آگ سی لگائی ہے ٹیسو نے پھول کے
کیا زرد زرد پھول کھلے ہیں ببول کے
ہے اسٹ دیوتاؤ کے مندر سجے ہوئے
ہیں زرد زرد پھولوں سے کل در سجے ہوئے
بس دیو جی کے لال کی جھانکی عجیب ہے
آنند بے حساب دلوں کو نصیب ہے
بنسی جڑاؤ سونے کی لب سے ملی ہوئی
دل کی کلی کلی ہے نظر میں کھلی ہوئی
پیتامبر نفیس کمر میں کسا ہوا
خوشبو سے ہار پھول کی مندر بسا ہوا
شانوں پہ بل پڑے ہوئے زلف سیاہ کے
رادھا سے بار بار اشارے نگاہ کے
بانکی ادائیں دیکھ کے دل لوٹ پوٹ ہے
رتکام استری کے کلیجے پہ چوٹ ہے
کانوں میں کنڈلوں کی چمک ہے جڑاؤ سے
رادھا لجائی جاتی ہے چنچل سبھاؤ سے
پیاری کا ہاتھ اپنی بغل میں لیے ہوئے
آنکھیں شراب حسن جوانی پیے ہوئے
دل رادھکا کا بادۂ الفت سے چور ہے
کہنی سے ٹھیلنے کی ادا کا ظہور ہے
چپکی کھڑی ہے کشن کے رخ پر نگاہ ہے
ہے پہلوئے جگر میں جگہ دل میں راہ ہے
الفت بھری جو بنسی کی جانب نظر گئی
گویا بسنت کی راگ کی دھن مست کر گئی
اس چھب پہ اس سنگار پہ دل سے نثار افقؔ
قربان ایک بار نہیں لاکھ بار افقؔ
اے کشن ناظریں کو مبارک بسنت ہو
کھیلا جو اپنے وہ ابد تک بسنت ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |