بسنت اور ہولی کی بہار

بسنت اور ہولی کی بہار
by افق لکھنوی
299472بسنت اور ہولی کی بہارافق لکھنوی

ساقی کچھ آج تجھ کو خبر ہے بسنت کی
ہر سو بہار پیش نظر ہے بسنت کی

سرسوں جو پھول اٹھی ہے چشم قیاس میں
پھولے پھلے شامل ہیں بسنتی لباس میں

پتے جو زرد زرد ہیں سونے کے پات ہیں
صدبرگ سے طلائی کرن پھول مات ہیں

ہیں چوڑیوں کی جوڑ بسنتی کلائی میں
بن کے بہار آئی ہے دست حنائی میں

مستی بھرے دلوں کی امنگیں نہ پوچھیے
کیا منطقیں ہیں کیا ہیں ترنگیں نہ پوچھئے

ماتھے پہ حسن خیز ہے جلوہ گلال کا
بندی سے اوج پر ہے ستارہ جمال کا

گیندوں سے مائل گل بازی حسین ہیں
سر کے ابھار پر سے دوپٹے مہین ہیں

عکس نقاب زینت رخسار ہو گیا
زیور جو سیم کا تھا طلا کار ہو گیا

سرسوں کے لہلہاتے ہیں کھیت اس بہار میں
نرگس کے پھول پھول اٹھے لالہ زار میں

آواز ہے پپیہوں کی مستی بھری ہوئی
طوطی کے بول سن کے طبیعت ہری ہوئی

کوئل کے جوڑے کرتے ہیں چہلیں سرور سے
آتے ہیں تان اڑاتے ہوئے دور دور سے

بور آم کے ہیں یوں چمن کائنات میں
موتی کے جیسے گچھے ہوں زر کار پات میں

بھیروں کی گونج مست ہے ہر کشت زار میں
بنسی بجاتے کشن ہے گویا بہار میں

کیسر کسوم کی خوب دل افزا بہار ہے
گیندوں کی ہر چمن میں دو رویہ قطار ہے

اک آگ سی لگائی ہے ٹیسو نے پھول کے
کیا زرد زرد پھول کھلے ہیں ببول کے

ہے اسٹ دیوتاؤ کے مندر سجے ہوئے
ہیں زرد زرد پھولوں سے کل در سجے ہوئے

بس دیو جی کے لال کی جھانکی عجیب ہے
آنند بے حساب دلوں کو نصیب ہے

بنسی جڑاؤ سونے کی لب سے ملی ہوئی
دل کی کلی کلی ہے نظر میں کھلی ہوئی

پیتامبر نفیس کمر میں کسا ہوا
خوشبو سے ہار پھول کی مندر بسا ہوا

شانوں پہ بل پڑے ہوئے زلف سیاہ کے
رادھا سے بار بار اشارے نگاہ کے

بانکی ادائیں دیکھ کے دل لوٹ پوٹ ہے
رتکام استری کے کلیجے پہ چوٹ ہے

کانوں میں کنڈلوں کی چمک ہے جڑاؤ سے
رادھا لجائی جاتی ہے چنچل سبھاؤ سے

پیاری کا ہاتھ اپنی بغل میں لیے ہوئے
آنکھیں شراب حسن جوانی پیے ہوئے

دل رادھکا کا بادۂ الفت سے چور ہے
کہنی سے ٹھیلنے کی ادا کا ظہور ہے

چپکی کھڑی ہے کشن کے رخ پر نگاہ ہے
ہے پہلوئے جگر میں جگہ دل میں راہ ہے

الفت بھری جو بنسی کی جانب نظر گئی
گویا بسنت کی راگ کی دھن مست کر گئی

اس چھب پہ اس سنگار پہ دل سے نثار افقؔ
قربان ایک بار نہیں لاکھ بار افقؔ

اے کشن ناظریں کو مبارک بسنت ہو
کھیلا جو اپنے وہ ابد تک بسنت ہو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.