بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا

بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا
by شکیب جلالی
330780بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیاشکیب جلالی

بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا
وہ پاس آ رہا تھا کہ میں دور ہٹ گیا

پھر درمیان عقل و جنوں جنگ چھڑ گئی
پھر مجمع خواص گروہوں میں بٹ گیا

کیا اب بھی تیری خاطر نازک پہ بار ہوں
پتھر نہیں کہ میں ترے رستے سے ہٹ گیا

یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگ گل سے کٹ گیا

وہ لمحۂ شعور جسے جاں کنی کہیں
چہرے سے زندگی کی نقابیں الٹ گیا

اب کون جائے کوئے ملامت سے لوٹ کر
قدموں سے آ کے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا

آخر شکیبؔ خوئے ستم اس نے چھوڑ دی
ذوق سفر کو دیکھ کے صحرا سمٹ گیا


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.