بس دل کا غبار دھو چکے ہم

بس دل کا غبار دھو چکے ہم
by میر حسن دہلوی

بس دل کا غبار دھو چکے ہم
رونا تھا جو کچھ سو رو چکے ہم

تم خواب میں بھی نہ آئے پھر ہائے
کیا خواب میں عمر کھو چکے ہم

ہونے کی رکھیں توقع اب خاک
ہونا تھا جو کچھ سو ہو چکے ہم

کہسار پہ چل کے روئیے اب
صحرا تو بہت ڈبو چکے ہم

پھر چھیڑا حسنؔ نے اپنا قصہ
بس آج کی شب بھی سو چکے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse