بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس
بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس
اب ہوں میں اور بے دلی کی ہوس
کہ رہے دل نہ بے قراریِ دل
عاشقی ہو نہ عاشقی کی ہوس
وہ ستمگر بھی ہے عجیب کوئی
کیوں ہوئی دل کو پھر اسی کی ہوس
پھرتی رہتی ہے آدمی کو لئے
خوار دنیا میں آدمی کی ہوس
دونوں یکساں ہیں بے خودی میں ہمیں
فکرِ غم ہے نہ خمریِ کی ہوس
واقفِ لذّتِ جنوں جو ہوا
نہ رہی اس کو آگہی کی ہوس
ان کو دیکھا ہے جب سے گرمِ عتاب
آرزو کو ہے خود کشی کی ہوس
کر سکیں بھی تو ہم فقیر ترے
نہ کریں تاجِ خسرویِ کی ہوس
ہجرِ ساقی کے دور میں حسرت
اب نہ مے ہے نہ مے کشی کی ہوس
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |