بلائے جاں مجھے ہر ایک خوش جمال ہوا

بلائے جاں مجھے ہر ایک خوش جمال ہوا
by حیدر علی آتش
294831بلائے جاں مجھے ہر ایک خوش جمال ہواحیدر علی آتش

بلائے جاں مجھے ہر ایک خوش جمال ہوا
چھری جو تیز ہوئی پہلے میں حلال ہوا

گرو ہوا تو اسے چھوٹنا محال ہوا
دل غریب مرا مفلسوں کا مال ہوا

کمی نہیں تری درگاہ میں کسی شے کی
وہی ملا ہے جو محتاج کا سوال ہوا

دکھا کے چہرۂ روشن وہ کہتے ہیں سر شام
وہ آفتاب نہیں ہے جسے زوال ہوا

دکھا نہ دل کو صنم اتحاد رکھتا ہوں
مجھے ملال ہوا تو تجھے ملال ہوا

بجھایا آنکھوں نے وہ رخ تلاش مضموں میں
خیال یار مرا شعر کا خیال ہوا

ترے شہید کے جیب کفن میں اے قاتل
گلال سے بھی ہے رنگ عبیر لال ہوا

بلند خاک نشینی نے قدر کی میری
عروج مجھ کو ہوا جب کہ پائمال ہوا

غضب میں یار کے شان کرم نظر آئی
بنایا سرو چراغاں جسے نہال ہوا

یقیں ہے دیکھتے صوفی تو دم نکل جاتا
ہمارے وجد کے عالم میں ہے جو حال ہوا

وہ ناتواں تھا ارادہ کیا جو کھانے کا
غم فراق کے دانتوں میں میں خلال ہوا

کیا ہے زار یہ تیری کمر کے سودے نے
پڑا جو عکس مرا آئینہ میں بال ہوا

دکھانی تھی نہ تمہیں چشم سرمگیں اپنی
نگاہ ناز سے وحشت زدہ غزال ہوا

دہان یار کے بوسہ کی دل نے رغبت کی
خیال خام کیا طالب محال ہوا

رہا بہار و خزاں میں یہ حال سودے کا
بڑھا تو زلف ہوا گھٹ گیا تو خال ہوا

جنوں میں عالم طفلی کی بادشاہت کی
کھلونا آنکھوں میں اپنی ہر اک غزال ہوا

سنا جمیل بھی تیرا جو نام اے محبوب
ہزار جان سے دل بندۂ جمال ہوا

لکھا ہے عاشقوں میں اپنے تو نے جس کا نام
پھر اس کا چہرہ نہیں عمر بھر بحال ہوا

گنہ کسی نے کیا تھرتھرایا دل اپنا
عرق عرق ہوئے ہم جس کو انفعال ہوا

ترے دہان و کمر کا جو ذکر آیا یار
گمان و وہم کو کیا کیا نہ احتمال ہوا

کمال کون سا ہے وہ جسے زوال نہیں
ہزار شکر کہ مجھ کو نہ کچھ کمال ہوا

تمہاری ابرو کج کا تھا دوج کا دھوکا
سیاہ ہوتا اگر عید کا ہلال ہوا

دیا جو رنج ترے عشق نے تو راحت تھی
فراق تلخ تو شیریں مجھے وصال ہوا

وہی ہے لوح شکست طلسم جسم آتشؔ
جب اعتدال ناصر میں اختلال ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.