بلبل تو بہت ہیں گل رعنا نہیں کوئی
بلبل تو بہت ہیں گل رعنا نہیں کوئی
بیمار ہزاروں ہیں مسیحا نہیں کوئی
کام آئے برے وقت میں ایسا نہیں کوئی
تم کیا ہو زمانے میں کسی کا نہیں کوئی
ہم عشق میں ہیں فرد تو تم حسن میں یکتا
ہم سا بھی نہیں ایک جو تم سا نہیں کوئی
تم کیا کرو قسمت ہی اگر اپنی بری ہو
تقدیر کے لکھے کو مٹاتا نہیں کوئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |