بلبل وہ گل ہے خواب میں تو گا کے مت جگا
بلبل وہ گل ہے خواب میں تو گا کے مت جگا
یا چٹکیوں کی غنچوں سے بجوا کے گت جگا
وہ گلعذار باغ میں آوے جو رحم کر
کہتے ہیں گل گلوں سے کریں آج رت جگا
ہمدم وہ بذلہ سنج تو آتے ہی سو رہا
خوش طبعیوں سے بول کے باہم جگت جگا
تا صبح شام سے رہے مجلس میں دور جام
ساقی ہمیں جگائے تو با کیفیت جگا
کاٹی ہے بیکلی سے شب ہجر گل رخاں
ٹک آنکھ لگ گئی ہے صبا ہم کو مت جگا
ہے مجھ کو اس کی نازکیٔ طبع سے لحاظ
دوں ورنہ آنکھیں پاؤں سے مل کر ترت جگا
فرہاد و قیس چھوڑ گئے کشور جنوں
نوبت پر اپنی واں کی دلا سلطنت جگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |