بلبل کا دل خزاں کے صدمے سے ہل رہا ہے
بلبل کا دل خزاں کے صدمے سے ہل رہا ہے
گل زار کا مرقع مٹی میں مل رہا ہے
عالم میں جس نے جس نے دیکھا ہے عالم ان کا
کوئی تو ہم سے کہہ دے قابو میں دل رہا ہے
رخصت بہار کی ہے کہرام ہے چمن میں
غنچے سے غنچہ بلبل بلبل سے مل رہا ہے
ہرگز شباب پر تم نازاں شرفؔ نہ ہونا
ملنے کو خاک میں ہے جو پھول کھل رہا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |