بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی
بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی
کہ فرد داخل دفتر ہوئی گناہوں کی
ترے فقیر دکھائیں جو مرتبہ اپنا
نظر سے اترے چڑھی بارگاہ شاہوں کی
ذرا بھی چشم کرم ہو تو لے اڑیں حوریں
سمجھ کے سرمہ سیاہی مرے گناہوں کی
خوشا نصیب جو تیری گلی میں دفن ہوئے
جناں میں روحیں ہیں ان مغفرت پناہوں کی
فرشتے کرتے ہیں دامان زلف حور سے صاف
جو گرد پڑتی ہے اس روضے پر نگاہوں کی
رکے گی آ کے شفاعت تری خریداری
کھلیں گی حشر میں جب گٹھڑیاں گناہوں کی
میں ناتواں ہوں پہنچوں گا آپ تک کیونکر
کہ بھیڑ ہوگی قیامت میں عذر خواہوں کی
نگاہ لطف ہے لازم کہ دور ہو یہ مرض
دبا رہی ہے سیاہی مجھے گناہوں کی
خدا کریم محمد شفیع روز جزا
امیر کیا ہے حقیقت میرے گناہوں کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |