بن ترے کیا کروں جہاں لے کر
بن ترے کیا کروں جہاں لے کر
یہ زمیں اور یہ آسماں لے کر
اشک چھلکائے بال بکھرائے
وہ گئے میری داستاں لے کر
دو جہاں کی طلب سے فارغ ہوں
تیرا در تیرا آستاں لے کر
اڑ گئے سب چمن کو رہ گئے ہم
چار تنکوں کا آشیاں لے کر
رنگ محفل ترا بڑھانے کو
آئے ہم چشم خوں فشاں لے کر
سب گئے پوچھنے مزاج ان کا
میں گیا اپنی داستاں لے کر
سب پھرے لے کے اپنے یوسف کو
میں پھرا گرد کارواں لے کر
سب اڑے لے کے پھول گلشن سے
اور ہم اپنا آشیاں لے کر
میری تقدیر کیا بتاؤں جلیلؔ
جا رہی ہے کہاں کہاں لے کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |