بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا
بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا
ڈر لگے نام لیے جس کا وہ آزار لگا
سب یہ کہتے ہیں مجھے تجھ سے جو دل یار لگا
ہائے کیا اس کو جوانی میں یہ آزار لگا
ہم دوانوں کا یہ ہے دشت جنوں میں رتبہ
کہ قدم رکھتے ہی آ پاؤں سے ہر خار لگا
کہیے کیوں کر نہ اسے بادشہ کشور حسن
کہ جہاں جا کے وہ بیٹھا وہیں دربار لگا
قدر پھر اپنی ہو کیا اس کے خریداروں میں
روز و شب جس کی گلی میں رہے بازار لگا
کون سا دن وہ کٹا مجھ پہ کہ اے تیغ فراق
زخم اک تازہ مرے دل پہ نہ ہر بار لگا
دل میں اب اس کے جو لہر آئی ہے گھر جانے کی
تو بھی رونے کی جھڑی دیدۂ خوں بار لگا
متصل تو جو مرا خون جگر پیتا ہے
کیوں غم عشق یہ کیا تجھ کو مزے دار لگا
تیز دستیٔ جنوں آج ہے ایسی ہی کہ بس
نہ رہا اپنے گریباں میں کوئی تار لگا
اس زمیں میں غزل اک اور بھی پڑھ اے جرأتؔ
خوب انداز کے اب کہنے تو اشعار لگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |