بوئے گل سونگھ کر بگڑتے ہیں
بوئے گل سونگھ کر بگڑتے ہیں
یہ پری رو ہوا سے لڑتے ہیں
کیوں جوانی کے پیچھے پڑتے ہیں
بھاگتے کو نہیں پکڑتے ہیں
ایک دن وہ زمین دیکھیں گے
اے فلک آج کو اکڑتے ہیں
مل رہے ہیں وہ اپنے گھر مہندی
ہم یہاں ایڑیاں رگڑتے ہیں
نامہ بر ناامید آتا ہے
ہائے کیا سست پاؤں پڑتے ہیں
جس کے ہیں اس کے ہیں ہم اے جوہر
یار بن کر کہیں بگڑتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |