بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے

بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے
by حیرت الہ آبادی

بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے
زلفیں چھوئیں بلا میں گرفتار ہو گئے

سکتہ ہے بیٹھے سامنے تکتے ہیں ان کی شکل
کیا ہم بھی عکس آئینۂ یار ہو گئے

بیٹھے تمہارے در پہ تو جنبش تلک نہ کی
ایسے جمے کہ سایۂ دیوار ہو گئے

ہم کو تو ان کے خنجر ابرو کے عشق میں
دن زندگی کے کاٹنے دشوار ہو گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse