بچنی (1955)
by سعادت حسن منٹو
325058بچنی1955سعادت حسن منٹو

بھنگنوں کی باتیں ہورہی تھیں۔ خاص طور پر ان کی جو بٹوارے سے پہلے امرتسر میں رہتی تھیں۔ مجید کا یہ ایمان تھا کہ امرتسر کی بھنگنوں جیسی کراری چھوکریاں اور کہیں نہیں پائی جاتیں۔ خدا معلوم تقسیم کے بعد وہ کہاں تتر بتر ہوگئی تھیں۔

رشید ان کے مقابلے میں گجریوں کی تعریف کرتاتھا۔ اس نے مجید سے کہا، ’’تم ٹھیک کہتے ہوکہ امرتسری بھنگنیں اپنی جوانی کے زمانے میں بڑی پرکشش ہوتی ہیں، لیکن ان کی یہ جوانی کھترانیوں کی طرح زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی۔۔۔ بس ایک دن جوان ہوتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ادھیڑ ہو جاتی ہیں۔۔۔ ان کی جوانی معلوم نہیں کون سا چور چرا کے لے جاتا ہے۔ خدا کی قسم۔۔۔ ہمارے ہاں ایک بھنگن کوٹھا کمانے آتی تھی۔۔۔ اتنی کڑیل جوان تھی کہ میں اپنی کمزورجوانی کو محسوس کرکے اس سے کبھی بات نہ کرسکا۔۔۔ عیسائی مشنریوں نے اسے اپنے مذہب میں داخل کرلیا تھا۔ نام اس کا فاطمہ تھا۔ پہلے گھر والے اسے پھاتو کہتے تھے۔۔۔ مگر جب وہ عیسائی ہوئی تو اسے مس پھاتو کے نام سے پکارا جانے لگا ۔۔۔ صبح کو وہ بریک فاسٹ کرتی تھی، دوپہر کو لنچ اور شام کو ڈنر۔۔۔ لیکن چند مہینوں کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ اس کی ساری کڑیل جوانی جیسے پگھل گئی ہے۔۔۔ اس کی چھاتیاں جو بڑی تندخو تھیں اور اس طرح اوپر اٹھی رہتی تھیں جیسے ابھی اپنا سارا جوان بدن آپ پر داغ دیں گی، اس قدر نیچے ڈھلک گئی تھیں کہ ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا تھا۔

لیکن اس کے مقابلے میں ہمارے گھر میں وہ گجری جو اپلے لے کر آتی تھی، تیر کی طرح سیدھی تھی۔ اس کی عمر بھی اتنی ہوگی جتنی اس بھنگن کی تھی۔۔۔ مگر وہ تین برس کے بعد بھی ویسی ہی جوان تھی۔۔۔ سروقد۔۔۔ اپلوں کا ٹوکرا اس کے سر پرہوتا تھا۔۔۔ ایک پہاڑ سا بنا ہوا۔ مگر مجال ہے کہ اس کی گردن میں ہلکی سی جنبش آجائے یا اس کی کمر میں خفیف سا خم آجائے۔۔۔ تین برس وہ ہمارے یہاں آتی رہی۔ اس کے بعد اس کی شادی ہوگئی۔۔۔ اس کے یکے بعد دیگرے تین لڑکے پیدا ہوئے۔۔۔ اور مجید! میں خدا کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ اس کی کمر ویسی ہی مضبوط تھی۔۔۔ تم میری مان لو کہ بھنگنیں، گوجریوں کا مقابلہ کسی صورت بھی نہیں کرسکتیں۔‘‘ مجید تلملا رہا تھا۔ اس نے پان کی گلوری پندنیا میں سے نکال کر اپنے کلّے میں دبائی۔ چھوٹی ڈبیا سے ماچس کی تیلی کی مدد سے تھوڑا سا قوام نکالا اور منہ میں ڈال کر بڑے تحمل سے کہا، ’’رشید بھائی۔۔۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ لیکن جس بھنگن کا تصور میرے دماغ میں ہے، اور جس کی دراصل میں بات کرنا چاہتا تھا۔۔۔ ایک فتنہ تھا۔۔۔ اب تم ایسا کرو کہ میری ساری داستان سن لو تاکہ تمہیں اس فتنہ و قیامت کے متعلق کچھ معلوم ہوسکے۔

جوبن ڈھلنے کی تم جو بات کرتے ہو، اس کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ گجریوں کاقد لمبا ہوتا ہے۔ قدرتی طور پر انھیں جلدی ڈھلنا چاہیے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ ننگے پاؤں رہتی ہیں اور اپنے سر پر بقول تمہارے پہاڑ سا اپلوں کا ٹوکرا اٹھائے اٹھائے پھرتی ہیں۔۔۔ لیکن لعنت بھیجو فی الحال گجریوں پر، کیوں کہ مچھے بچنی کی بات کرنا ہے جو ہمارے محلے کی بڑی کراری بھنگن تھی۔۔۔ اس کا قد تو انگشتانہ بھرکا تھا مگر زبان اسکندری گز تھی۔ شادی شدہ تھی، مگر خاوند سے ہر روز لڑتی جھگڑتی رہتی تھی۔ ہمارے کمپاؤنڈ میں یہ دونوں میاں بیوی ہر روز صبح سویرے آتے اور ایک بڑکے درخت کے ساتھ جھولا لٹکا دیتے۔ اس میں وہ اپنا لڑکا ڈال دیتے تھے۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ اس کو جھلانے والا کوئی نہیں تھا، چنانچہ دونوں میاں بیوی جھاڑو چھوڑ کر اسے جھولا جھلاتے یا گود میں اٹھائے پھرتے تھے۔‘‘

رشید نے مجید سے کہا، ’’یہ جھولے کی بات کہاں سے آگئی۔۔۔ تم تو ایک کراری بھنگن کی بات کررہے تھے۔۔۔ جو بقول تمہارے بہت خوبصورت تھی۔‘‘

مجید نے فوراً کہا، ’’یار تم جھولے کے ساتھ کیوں اٹک گئے۔۔۔ میری پوری کہانی تو سن لو۔۔۔ یہ جھولے کی نہیں بچنی کی بات ہے۔۔۔ اس بچنی کی جسے میں ساری عمر فراموش نہیں کرسکتا۔۔۔ وہ ایک آفت تھی۔۔۔ صبح اپنے خاوند کے ساتھ آتی تھی۔۔۔ ہاتھ میں لمبی سی جھاڑو لیے۔۔۔ ماتھے پرسیکڑوں تیوریاں۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا کہ ابھی جھاڑو آپ کے سر پر دے مارے گی۔۔۔ مگر ایسا موقع کبھی نہیں آیا۔۔۔ میں نے ہزاروں بار اس کو گھورا، لیکن اس نے میرے سر پر جھاڑو نہیں ماری۔۔۔ اس کی تیوریاں اس کے ماتھے پر بدستور قائم رہیں اور وہ حسب سابق اپنا کام کرتی رہیں۔ اس کا خاوند جس کا نام معلوم نہیں کیا تھا، اول درجے کا زن مرید تھا۔ اس کا قد اپنی بیوی سے بھی چھوٹا تھا۔ وہ اس کو کام کے دوران میں ہمیشہ گالیاں دیا کرتی تھی۔۔۔ محلے کے سب لوگ سنتے تھے اور آپس میں چہ میگوئیاں کرتے تھے۔‘‘

رشید اتنی لمبی داستان سن کر بھنا گیا، ’’تم اصل بات کی طرف آؤ۔۔۔ یہ کیا چہ مے گوئیاں بک رہے ہو۔۔۔ بچنی نام بڑا اچھا ہے، ورنہ خدا کی قسم! میں تمہاری یہ خرافات کبھی نہ سنتا۔۔۔ معلوم نہیں۔۔۔ یہ تمہاری جوڑی ہوئی کہانی ہے۔۔۔ بہر حال، تمہیں چند منٹ دیتا ہوں۔۔۔ سنالو۔‘‘

مجید تاؤ میں آگیا، ’’الو کے پٹھے۔۔۔ تم نے صرف بچنی کا نام سنا ہے، کبھی تم نے اسے دیکھا ہوتا تو دل نکال کر اس کے ٹوکرے میں ڈال دیا ہوتا۔۔۔ میں تم سے اگر ایک واقعہ بیان کررہا ہوں تو اس میں نمک مرچ لگانے کی مجھے اجازت ہونی چاہیے۔۔۔ تم اگر اکتا گئے ہو تو جہنم میں جاؤ۔‘‘

رشید کو اور کوئی کام نہیں تھا۔ اس کے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ کسی سینما میں چلا جاتا، اس لیے اس نے مناسب سمجھا کہ مجید کی داستان سن لے’’جہنم میں جانے کا سوال نہیں۔۔۔ تم ذرا اختصار سے کام لو۔۔۔ اصل میں مجھے بچنی سے دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔‘‘

مجید غصے میں آگیا، ’’تمہاری دلچسپی کی ایسی کی تیسی۔۔۔ سالے، تم کون ہوتے ہو اس میں دلچسپی لینے والے۔۔۔ اس میں دلچسپی لینے والے تم ایسے ہزاروں تھے، مگر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔۔۔ میں تم سے کروڑ مرتبہ زیادہ خوبصورت ہوں، لیکن میں اس نگہ التفات کا ہروقت منتظر رہتا تھا۔۔۔ وہ بڑی ہٹیلی تھی۔۔۔ میرے دوست رشید، خدا کی قسم! اس جیسی لڑکی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ نام اس کا بچنی تھا۔۔۔ یعنی بچن سے تعلق رکھتا تھا۔۔۔ مگر وہ تو پھاپھا کٹنی تھی۔۔۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس کو اپنے قبضے میں لے آؤں، پرناکام رہا۔ وہ پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں دھرنے دیتی تھی۔‘‘

یہ سن کر رشید بولا، ’’تم یار ہمیشہ ایسے معاملوں میں کور ے رہے ہو۔‘‘

مجید کے گہری چوٹ لگی،’’بکواس کرتے ہو۔۔۔ میں نے ایک روز اسے پکڑ لیا۔۔۔ میرے گھر کے باہر وہ جھاڑو دے رہی تھی کہ میں نے اس کا بازو پکڑ لیا اور اپنے ساتھ چمٹا لیا۔‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘رشید نے ازراہ مذاق سگریٹ سلگایا اور ماچس کی تیلی بجھا کر اس کے کئی ٹکڑے کرکے ایش ٹرے میں ڈال دیے۔مجید کو ایسا محسوس ہوا کہ رشید نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہیں۔ بہت جزبز ہوا، لیکن آدمی سچا تھا اس لیے جھوٹ نہ بول سکا، ’’رشید! تم مذاق اڑاتے ہو۔۔۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ اس روز ہوا، اس کا مذاق اڑانا ہی چاہیے۔۔۔ میں نے اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔۔۔ لیکن اس حرام زادی نے کھینچ کے اپنی جھاڑومیرے منہ پر دے ماری۔ میں شرم کے مارے اندر بھاگ گیا۔۔۔ لیکن فوراً باہر نکلا۔۔۔ دیکھا کہ وہ میرے مکان کے باہر جھاڑو دے رہی ہے۔۔۔ میں نے اسے پھر پکڑا۔۔۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔۔۔ میں نے سوچا۔۔۔‘‘

رشید نے مجید کا فقرہ مکمل کردیا، ’’کہ معاملہ درست ہوگیا ہے۔‘‘

مجید بوکھلا گیا، ’’خاک درست ہوا۔۔۔ وہ میری گرفت سے نکل کر سیدھی میری بیوی کے پاس چلی گئی۔۔۔ لیکن اس سے کوئی شکایت نہ کی۔۔۔ میں ڈر کے مارے دبکا ہوا تھا۔۔۔ میں نے صرف یہ سنا اور میری جان کا بوجھ ہلکا ہوا،’’بی بی جی آج پانی نہیں آیا۔۔۔ یہ ان لوگوں کو جو آپ سے ہر مہینے دس روپے وصول کرتے ہیں، کیا ہوگیا ہے۔۔۔ کیوں وہ اتنا خیال نہیں کرتے کہ آپ کو ہر روز ماشکی کو دس مشکوں کے چار آنے فی مشک کے حساب دو روپے آٹھ آنے دینا پڑیں۔۔۔‘‘ میں نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے میری عزت و آبرو رکھ لی۔۔۔ لیکن میں نے بعد میں سوچا کہ میری عزت و آبرو رکھنے والی اصل میں بچنی۔۔۔ لیکن جب زیادہ سوچا تو احساس ہوا کہ ایسا سوچنا کفر ہے۔‘‘

رشید قریب قریب تنگ آچکا تھا۔ اس نے اپنے دوست کی خاطر آواز دبا کرکہا، ’’کافر کے بچے۔۔۔بات تو کر کہ تیرا اس بچنی کی بچنی سے کیاہوا۔۔۔ کیا تم نے اسے پٹالیا؟‘‘ مجید نے رشید کی پندنیا میں سے ایک گلوری لی اور کہا، ’’دیکھو رشید۔۔۔ تم بچنی کو جانتے نہیں۔۔۔ افسوس ہے کہ میں افسانہ نگار نہیں ورنہ میں اس کا کردار بہت اچھی طرح۔۔۔ جیتا جاگتا پیش کرسکتا۔۔۔ وہ معلوم نہیں شے کیا تھی۔۔۔ عمر اس کی زیادہ سے زیادہ۔۔۔ یہ سمجھو کہ سترہ اٹھارہ برس کے قریب ہوگی۔۔۔ قد اس کا ساڑھے چار فٹ ہوگا۔۔۔ چھاتی ایسی تھی جیسے لوہے کی بنی ہے، حالانکہ ایک بچے کی ماں تھی۔‘‘

رشید بہت تنگ آگیا، ’’ایک بچے کی ماں کے بچے۔۔۔ تو اپنی داستان کے انجام کوپہنچ۔۔۔ مجھے ایک بہت ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔ ساڑھے سات بج چکے ہیں ، لیکن تمہاری د استان ہی ختم ہونے میں نہیں آتی۔‘‘

مجیدسنجیدہ رہا، ’’شید لالے۔۔۔ معاملہ بڑا نازک ہے۔‘‘

’’کس کا۔۔۔ تمہارا یا میرا؟‘‘

’’میں نہیں کہہ سکتا، لیکن جس وقت کی میں بات کررہا ہوں، اس وقت معاملہ میرا تو بہت نازک تھا۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کروں، کیا نہ کروں۔۔۔ اب تم یہ خیال کرو کہ میں ہزاروں کا مالک تھا۔۔۔ تم جانتے ہو کہ ماں باپ مر کھپ چکے تھے۔۔۔ ساری جائیداد کا میں وارث تھا۔ جہاں چاہتا، لٹا دیتا۔۔۔ اس روز جب میں نے بچنی کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچا اور وہ میری گرفت سے یوں الگ ہٹی جیسے میرا کام تمام کردے گی، لیکن میری بیوی سے اس نے اس سلسلے کا ذکر تک نہ کیا تو مجھے امید ہوگئی کہ چند ایسے معاملوں کے بعد میں کامیاب ہو جاؤں گا۔‘‘

رشید نے اس سے پوچھا، ’’تجھے کامیابی ہوئی؟‘‘

’’خاک۔۔۔ تم اسے جانتے ہی نہیں۔۔۔ بڑی تیزخو لڑکی ہے۔۔۔ اپنے خاوند کو کچھ نہیں سمجھتی۔۔۔ لیکن ایک عجیب بات ہے کہ میں نے اس سے اتنی چھیڑ خانی کی، لیکن اس نے کسی سے بات تک نہ کی، ورنہ اگر چاہتی تو میرا گھر نکالا کرسکتی تھی۔‘‘

رشید مسکرایا۔ ’’میں تمہاری بچنی کو جانتا ہوں۔۔!‘‘

مجید نے بڑی حیرت سے پوچھا، ’’تم کیسے جانتے ہو اس کو؟‘‘

’’جس طرح تم جانتے ہو۔۔۔ کیا تم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ وہ تمہارے ہی محلے کے کام کیا کرے۔۔۔ میں اس کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘

مجید کو یقین نہ آیا، ’’بکواس کرتے ہو۔۔۔ اس کی عمر ہی کتنی ہے کہ تم اسے جانو۔۔۔ دو برس سے کچھ مہینے اوپر ہوگئے ہیں کہ وہ ہمارے محلے میں بلاناغہ آتی ہے۔ اس کے لڑکے کی عمر بھی دو سال کے قریب ہوگی۔۔۔ یعنی جب وہ ہمارے ہاں ملازم ہوئی تو اس کے کوئی بچہ نہیں تھا۔۔۔ لیکن دو تین مہینے کے بعد اس کی گود میں ایک لڑکا تھا۔‘‘

رشید پھر مسکرایا، ’’تمہارا؟‘‘

’’میرا!‘‘ مجید گھبرا گیا، لیکن فوراً سنبھل کر اس نے مذاق کا جواب مذاق میں دیا، ’’میرا ہوتا تو کیا کہنے تھے۔۔۔ کم از کم میں یہ تو کہنے کے قابل ہو جاتا کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ہوں۔‘‘

رشید کی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب رنگ اختیار کرگئی،’’تمہیں اپنی بچنی کے شوہر کا نام معلوم نہیں؟‘‘

’’نہیں‘‘!

’’میں بتاتا ہوں تمہیں۔۔۔ اس کے شوہر کا نام رشید ہے۔‘‘

مجید بوکھلا گیا، ’’رشید۔۔۔۔۔۔ کیا اس کا نام رشید ہے؟‘‘

رشید نے بڑے وثوق اور بڑی سنجیدگی سے جواب دیا،’’ہاں۔۔۔ اس کا نام رشید ہے۔۔۔ اصل میں وہی اس کا شوہر ہے۔‘‘

’’وہ جو اس کے ساتھ ہمارے محلے میں جھاڑو دیتا ہے اور اپنے بچے کو جھولا جھلاتا ہے؟‘‘ مجید کی بوکھلاہٹ اسی طرح قائم تھی۔

رشید کی سنجیدگی میں کچھ اور اضافہ ہوگیا، ’’وہ الو کا پٹھا اپنے بچے کو جھولا نہیں جھلاتا!‘‘

’’تو کسے جھلاتا ہے۔۔۔ کیا وہ اس رشید کا بچہ نہیں؟‘‘

’’نہیں!‘‘

’’تو کس کا بچہ ہے؟‘‘

’’ایک غریب اور نادارآدمی کا۔۔۔ جو خوبصورت بھی نہیں۔۔۔ تم سے ہزاروں درجے نیچے ہے۔‘‘

’’کون ہے وہ؟‘‘

’’پوچھ کے کیا کرو گے؟‘‘

’’کروں گا کیا۔۔۔ بس ایسے ہی جاننا چاہتا ہوں۔‘‘

رشید نے ایک سگریٹ سلگایا اور بڑے اطمینان سے کہا، ’’جاننا چاہتے ہو تو جان لو۔۔۔ وہ رشید میں ہوں۔۔۔ تمہاری بچنی سے میری آشنائی بچپن کی ہے۔۔۔ وہ گیارہ برس کی تھی۔۔۔ میں تیرہ برس کا۔۔۔ جب سے میرا اس کا معاملہ چل رہا ہے۔۔۔ وہ لڑکا جو تم اس کی گود میں دیکھتے ہو اور جسے اس کا الو کا پٹھا شوہر ہر روز جھولا جھلاتا ہے، اس خاکسار کی اولاد ہے۔۔۔ شکر ہے خداوند کریم کا کہ لڑکی نہ ہوئی، ورنہ میں تو اسے دوسرے ہی روز مار ڈ التا۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر رشید فوراً اٹھا اور چلا گیا۔۔۔ مجید سوچتا رہ گیا کہ خدا وند کریم نے اس پر کون سا کرم کیا تھا جو وہ اس کا شکر گزار تھا۔۔۔!


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.