بڑھتی جاتی ہے میری اس کی چاہ

بڑھتی جاتی ہے میری اس کی چاہ
by جوشش عظیم آبادی

بڑھتی جاتی ہے میری اس کی چاہ
سچ ہے ہوتی ہے دل کو دل سے راہ

اس دہان و کمر کی مت پوچھو
کام کرتی نہیں کسی کی نگاہ

مرتے ہیں انتظار میں اس کے
آ بھی جائے کہیں وہ یا اللہ

اس کی زلف سیہ ہے ایک بلا
اس بلا سے خدا ہی دیوے پناہ

کھینچ کر مجھ پہ غیر کو ماری
آفریں آفریں جزاک اللہ

ہے شب زلف کا تماشائی
کیوں نہ ؔجوشش کا ہووے روز سیاہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse