بڑھے ہے دن بدن تجھ مکھ کی تاب آہستہ آہستہ
بڑھے ہے دن بدن تجھ مکھ کی تاب آہستہ آہستہ
کہ جوں کر گرم ہو ہے آفتاب آہستہ آہستہ
کیا خط نیں ترے مکھ کوں خراب آہستہ آہستہ
گہن جوں ماہ کوں لیتا ہے داب آہستہ آہستہ
لگا ہے آپ سیں اے جاں ترے عاشق کا دل رہ رہ
کرے ہے مست کوں بے خود شراب آہستہ آہستہ
دل عاشق کا کلی کی طرح کھلتا جائے خوش ہو ہو
ادا سیں جب کبھی کھولے نقاب آہستہ آہستہ
لگا ہے آبروؔ مجھ کوں ولیؔ کا خوب یہ مصرع
سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |