بڑے شرم کی بات
اماں جان نے خوشخبری سنائی کہ ’’افضل آ رہا ہے۔۔۔‘‘
’’ارے!‘‘ میرے منہ سے نکلا مگر میں چپ ہوکر سیدھی اٹھی اور چلی گئی۔ یہ واقعہ تھا کہ بھائی افضل آ رہے تھے۔ کون بھائی افضل؟ بس نہ پوچھئے۔ جب کا ذکر ہے کہ بھائی افضل ہمارے ہاں رہتے تھے۔ بخدا کیا زمانہ تھا۔ بھائی افضل توتلے ہیں۔ ایک علیحدہ صاف ستھری کوٹھری تھی، جس میں وہ رہتے تھے۔ دلہن کی طرح سجی رکھتے اور اس کو ’’تمرہ‘‘ یعنی کمرہ کہتے اور کوٹھری کوئی کہے تو خفا ہوتے۔ طبیعت میں غصہ بے حد تھا اور ان کو ہم سب بہنیں اور بھائی اپنی شرارتوں کا مرکز بنا لیتے اور خوب پٹتے بھی تھے۔ کیا مزہ رہا جب افضل بھائی فیل ہوئے ہیں۔ میں سو رہی تھی کہ رفیق آئی، مارے خوشی کے اس نے دو ہتڑ مار کر کہا، ’’اری مردی افضل بھائی فیل ہوگئے۔۔۔‘‘ معلوم ہوا کہ خاتون جو ہنسی تو وہ پٹ گئی اور خانساماں کا لڑکا بھی پٹ گیا اور حامد خاں بھی پٹ گئے۔ بقیہ بچے بھاگ گئے۔
یہ خبر ملنی تھی کہ میں بھی بے تحاشا دوڑی۔ دور سے ایک دروازے سے ہم نے جھانک کر دیکھا۔ مگر اتنے میں افضل بھائی دوسری طرف سےآگئے اور اپنے عجیب و غریب انداز میں بولے، ’’تون۔۔۔!‘‘ (کون) ہم سب نے ان کی طرف دیکھا۔ بولے، ’’چڑیلو۔ رونے تا متام ہے۔۔۔ اور توئی ہنسا تو تھوب سمجھ لو۔۔۔ (ہاتھ اٹھا کر بولے) ایتوں ایت تو تتل (قتل) تردوں دا!‘‘ اور ہمارا یہ حال کہ اِدھر انہوں نے ’’تتل‘‘ کرنے کو کہا ہے اور مارے ہنسی کے بے تاب ہو کر ہم سب کی سب بھاگیں اور افضل بھائی لپکے کہ ’’پترو۔‘‘ (پکڑو) والدہ صاحبہ سے شکایت کی تو وہ ہم سب پر خفا ہوئیں اور انہوں نے جتا دیا کہ ’’اگر تم ہنسیں تو وہ رنجیدہ ہے اور تم سب کو مارے گا۔‘‘
مگر باوجود اس کے بھلا کون سنتا ہے۔ دوپہر کو جب افضل بھائی غم میں چور پڑے سو رہے تھے تو ہم نے کوئلوں سے ان کے کمرے کے باہر دیواروں پر لکھ دیا ’’افضل بھائی فیل شد۔ خوب شد۔۔۔ افضل بھائی فیل شد۔ خوب شد۔‘‘ اس خوب شد کے موجد بھی خود افضل بھائی تھے۔ ہم لوگوں میں سے کوئی مارا جائے، کسی کا کوئی نقصان ہو تو بقیہ بچوں کو سکھاتے کہ خوب شد کا ورد کرکے دق کرو۔ چنانچہ یہ خوب شد ان کی ایجاد تھی۔ اب مزہ تو جب آیا ہے کہ افضل بھائی سو کر اٹھے اور ’’فیل شد خوب شد‘‘ پڑھا، سارے گھر میں مارے غصے کے ناچے ناچے پھرے۔ پھر ہم سب کو گرفتار کر کے اپنے کمرہ میں لائے۔ ایک بڑا سا چاقو نکالا۔ کہنے لگے، ’’ایتوں ایت تو تتل تردوں دا۔۔۔ یہ لتھا تسنے۔۔۔؟ یہ تھاتوں۔۔۔؟‘‘ ہم سب نے لاعلمی ظاہر کی تو قسم کو کہا اور ہم نے قسمیں کھائیں تو کہنے لگے، ’’یوں نہیں۔۔۔ لاؤ ترآن (قرآن) تھاؤ تسم۔‘‘
ویسے جھوٹی قسم تو نہ کھانا چاہیے تھی مگر پھر کرتے بھی کیا۔ سب نے قرآن اٹھا لیا کہ ہم نے نہیں لکھا۔ افضل بھائی جل کر رہ گئے اور یہ کہہ کر نکال دیا، ’’چڑیلو۔۔۔ نتلو یہاں سے۔ تمہارے سب تے اوپر بجلی درے دی۔۔۔ ترآن تی مار پرے دی۔۔۔‘‘ یہ نہیں معلوم کہ قرآن کی مار کی بہ نسبت ان کی مار کا زیادہ خوف تھا۔ نہ ہماری طبیعت بدلی اور نہ بھائی افضل کی طبیعت بدلی۔ سب بہن بھائی رشتہ دار سہیلیاں ساتھ کی کھیلنے والیاں، افضل بھائی کو اپنا سمجھتیں، حتی کہ بعض کی شادی ہوگئی اور افضل بھائی نہ چھوٹے۔ عزیز رشتہ داروں کا ذکر نہیں افضل بھائی سب کے بھائی تھے اور افضل بھائی کی طبیعت بھی کم و بیش وہی رہی۔ وہی ہم تھے اور وہی افضل بھائی تھے۔ اب وہ کوئی تین سال بعد آ رہے تھے اب وہ بالفاظ خود اپنے ’’داؤں‘‘ (گاؤں) میں رہتے تھے۔
دوسرے روز کا ذکر ہے۔ بڑے کمرہ میں بیٹھے سچ مچ بھائی افضل کے ساتھ چائے پی رہے تھے۔ بھائی افصل بہنوں سے مل کر بے حد خوش تھے۔ کتنی بھولی اور مزیدار باتیں تھیں۔ کسی کو بھولے نہیں تھے۔ کسی کا نام بھول گئے تو صورت یاد اور کسی کی صورت اور نام بھول گئے تو شرارت یاد۔ کیا مزے میں سوال کر رہے تھے۔
’’تس تس تی سادی ہوئی۔۔۔؟ اور وہ تہاں دئی۔۔۔؟ وہ لمبی نات والی۔۔۔؟ اور وہ تہاں ہے۔۔۔؟ لا حول بلا تب بت۔۔۔ اجی۔۔۔ سدرا! ارے! سادی ہووئی۔۔۔! تب۔۔۔؟ تے بچے ہیں۔۔۔؟ لڑتا ہے تے لرتی؟۔۔۔ تھوب! ابھی تل تی بات ہے، بادی پھرتی تھی۔۔۔ وہ تہاں ہے جس نے میری لتری چرائی تھی۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ غرض اسی قسم کے سوال کر رہے تھے کہ سامنے کے دروازے سے رفیق شیشے میں سے جھانکی۔ افضل بھائی نے دیکھ پایا۔ آہستہ سے اس طرف آنکھ کا اشارہ کرکے ہم سے پوچھا، ’’تون ہے یہ۔۔۔؟ یہ جھانت تون رہا ہے۔۔۔؟‘‘
میں نے مڑ کر دیکھا اور ہنس کر بولی، ’’رفیق ہے۔۔۔ (اور پکاری۔۔۔) آؤنا۔ کم بخت۔۔۔‘‘
’’ارے!‘‘ افضل بھائی احتجاج کے طورپر بولے، ’’پترو اس چریل تو۔۔۔! پردہ ترے دی یہ۔۔۔ مجھ سے! نالایت تہیں تی۔۔۔ ارے پتر۔۔۔‘‘ مارے ہنسی کے ہمارا برا حال ہو گیا۔ پر رفیق کو ذرا جھجک معلوم ہو رہی تھی۔ میں نے اور حشمت نے اسے گھسیٹ کر اور گرفتار کر کے افضل بھائی کی خدمت میں پیش کر دیا۔
’’چریل۔۔۔‘‘ افضل بھائی نے کہا، ’’قسم تھدا تی!‘‘ رفیق نے اطمینان کر دیا کہ پردہ کا ارادہ نہیں تھا اور افضل بھائی مطمئن ہوئے۔ ہم دونوں بہنیں صوفے پر بیٹھی تھیں، پاس ہی رفیق کو بٹھایا۔ اتنے میں نہ معلوم کس نے برآمدے سے آواز دی کہ افضل بھائی بولے، ’’تون۔۔۔؟‘‘ جب کوئی نہ بولا تو بولے، ’’اونہہ! تدہر سے آن مرا؟ نہ معلوم تون الو ہے یہ۔۔۔ دوہا نہیں تو۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اٹھے اور باہر گئے۔ یہاں جلدی جلدی ہم تینوں بہنیں تجویز کرنے لگیں کہ کوئی حرکت ایسی افضل بھائی کے ساتھ کی جائے جو پرانی باتیں یاد آ جائیں۔ ہم تینوں باتوں ہی میں لگے تھے اور مجھے تو خبر نہیں کون آتا ہے کہ پاؤں کی آہٹ فرش پر معلوم نہ دی تا وقتیکہ افضل بھائی نے کرسی گھسیٹ کر یہ نہ کہا، ’’ارے بیتھ بھی۔۔۔‘‘
اور میں جو مڑکر دیکھتی ہوں تو حامد خاں! آنکھیں چار ہوئی تھیں کہ جھک گئیں اور منہ موڑ کر آہستہ سے اٹھتی جو ہوں تو دوپٹے کا آنچل رفیق کے نیچے دبا اور اس کمبخت نے اور بھی زور سے دبا لیا اور میرا دامن الگ پکڑ لیا۔ وہ بھی اس زور سے کہ چھڑائے نہ چھوٹے۔ میں کیا عرض کروں کیسی گھبرائی۔ گھبرا کر اور گھٹ کر بیٹھ گئی اور کم بختی اور شرارت دیکھیے کہ گدگدایا اس بدتمیز نے۔ مگر میرے اوپر شرم کا اس قدر غلبہ تھا کہ ہنسی کہاں۔ رہ گیا غصہ تو وہاں پروا کسے۔ اور یہ ممکن نہیں کہ زور لگاکر میں دوپٹہ چھوڑ کر چلی جاؤں۔ داہنی طرف علیحدہ کو، حامد خاں بیٹھے تھے، میری طرف انہوں نے نہیں دیکھا۔ ان کا دل جانتا ہوگا اور افضل بھائی نے ان سے باتیں شروع کر دیں۔
یہ حامد خاں کون تھے؟ میں کیا عرض کروں۔ ذرا سوچئے۔ ساتھ کھیلے، پلے، بڑھے، ساتھ ہی پٹے۔ خود انہی افضل بھائی کے ہاتھوں مگر وقت گزرنے جو لگا تو پہلے بے تکلفی بتقاضائے عمر و جوانی دور ہوئی، پھر باتوں میں خاموشی اور تکلف پیدا ہوا۔ پھر والدہ صاحبہ کے سامنے سوائے علیک سلیک کے کچھ نہ رہ گیا۔ نظریں ملتیں تو خودبخود جھک جاتیں۔ پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھنا مارے شرم کے دل میں جرم معلوم ہونے لگا۔ حتی کہ اب یہ تھا کہ اِدھر حامد خاں کی آواز سنی نہیں کہ میں آہستہ سے سائے کی طرح اٹھ کر چلی گئی۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ والدہ صاحبہ نے یا والد صاحب نے کہا کہ آؤ، یا اب کی طرح آنے کا پتہ نہ چلا، تو فوراً ہی آہستہ سے اٹھ کر چلی گئی، اسے پردہ کہہ لیجیے۔ یہ سب جب سے ہوا جب سے طے ہوگیا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ہیں۔ حامد خاں سے ہمارا کچھ بھی رشتہ نہ تھا۔ رفیق کے چچا کے بیٹے بھائی تھے اور والد صاحب اور ان کے مرحوم سب ایک جدی تھے اور اس نسبت سے دونوں قریبی تھے۔
مرتے وقت ان کے والد صاحب کے سپرد کیا اور قریبی رشتہ دار نہ ہونے کے باوجود ہماری ان کی جائیداد ایک مورثِ اعلیٰ ہونے کی وجہ سے ایک ہی تھی۔ حامد خاں کی والدہ بھی مر چکی تھیں اور کوئی بھائی بہن نہ تھا اور وہ اپنے باپ کی جائیداد کے تنہا وارث تھے۔ کچھ عرصے سے علیحدہ ہوئے تھے ورنہ ہمارے یہاں رہتے تھے، لیکن جب پڑھنے کا سلسلہ ہوا، باہر رہنے لگے۔ صرف چھٹیوں میں آتے اور زیادہ وقت چھٹیوں کا بھی باہر دوست احباب میں گزارتے یا سیر و شکار میں۔ ایسے کہ عرصے سے ہمارے یہاں سے علیحدہ تھے۔
اب افضل بھائی کو دیکھیے۔ کر رہے ہیں چوطرفہ باتیں۔ بھلا حامد خاں کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے کہ فلاں کی شادی ہوگئی اور فلاں کی نہیں ہوئی۔ ان کو معلوم ہی تھا سب۔ پھر میری وجہ سے وہ بھی خاموش تھے۔ میں قدرے مڑی ہوئی بیٹھی تھی اور رفیق نے کہہ دیا کہ ’’اگر ذرا بھی اٹھی تو بس خیریت نہیں۔۔۔‘‘ میں جانتی تھی لہٰذا چپ۔ اور اِدھر بھائی افضل نے ایسی باتیں کرنی شروع کیں کہ خواہ مخواہ ہنسی آئے۔ انتہا یہ کہ حامد خاں کے لیے پیالی میں چائے ڈلوا رہے ہیں رفیق سے اور واللہ اعلم دماغ کہاں ہے۔ اب دماغی کیفیت بھائی افضل کی ملاحظہ ہوکہ رفیق سے پوچھتے ہیں، ’’اور۔۔۔ تیا نام تے۔۔۔ تیرا میاں ترتا تیا ہے۔۔۔؟ نوتر ہے نہیں۔‘‘ یہ کم بخت بغیر اٹھے ہوئے میرے دوپٹے کو دبائے چائے دانی سے چائے پیالی میں انڈیل رہی تھیں کہ افضل بھائی کا یہ دلچسپ سوال ہوا۔ حالانکہ اس کی شادی چھوڑ منگنی بھی نہیں ہوئی۔ اسے خود کو جوہنسی آئی تو چائے پیالی کی بجائے پرچ میں آئی اور چونک کے آپ فرماتے ہیں، ’’ارے۔۔۔ اندھی۔۔۔‘‘
آپا حشمت کے حلق میں چائے کا پھندا پڑا۔ میرے منہ سے دبی زبان سے نکل گیا، ’’گھاس کھودتا ہے۔۔۔‘‘ مارے ہنسی کے برا حال تھا کہ آپ گھاس کو سمجھے گارڈ۔۔۔ کہنے لگے۔ ’’دارد ہے۔۔۔‘‘ بہن حشمت بولیں، ’’افضل بھائی تمہیں ہو کیا گیا ہے۔‘‘ مگر میری جان چھوٹی۔ خود رفیق گھبراکر ہنسی کو ضبط کر کے چلی اور میں اس کے پیچھے اور لپک کے ہم دونوں برابر کے کمرے میں۔ اور وہاں پہنچ کر جو ہم دونوں پر ہنسی کا دورہ پڑا ہے تو الامان۔ گھنٹہ بھر تک یہ حالت رہی کہ بھائی افضل کی طرف دیکھا تک نہیں جاتا تھا۔ ایک ہنسی کا سیلاب ہے کہ چلا آتا ہے۔ حتی کہ شام کی تفریح کا پروگرام بگڑ گیا۔ خود افضل بھائی کہنے لگے، ’’تیا لرتیاں ہیں۔ تھد تو تہتی ہیں ایت بات۔۔۔ پھر کوئی بات بھی ہو۔ اتی بری ہووئیں مدر عقل ندارد۔۔۔! تبھی تچھ تبھی تچھ!‘‘
اسی روز رات کا ذکر ہے کہ معلوم ہوا کہ حامد خاں اپنی جائیداد کے جھگڑے میں آئے تھے اور آج والد صاحب سے کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ بدمزگی ہوگئی۔ جائیداد میں ان کا سوا پانچ آنہ حصہ ہوتا تھا۔ میرے ساتھ نسبت ہونے سے قبل وہ اپنا حصہ علیحدہ کر کے کھیت اور بٹوارہ اور اس پر قبضہ چاہتے تھے کہ یہ رشتہ قرار پایا اور کم بختی میری ملاحظہ ہو کہ ایک دفعہ جو یونہی ذکر آیا تھا، تو میں نے کہا تھا کہ میں جو ہوتی حامد خاں کی جگہ تو اپنا حصہ الگ کر کے علیحدہ رہتی۔ رفیق نے جاکر حامد خاں سے کہہ دیا۔ حامد خاں نے بھی سوچا کہ ہے تو ٹھیک اور انہوں نے نےسوچا کہ شادی سے پہلے ہی اپنی جائیداد کے مالک و مختار ہوکر علیحدہ ہو جانا ٹھیک ہے اور پھر اس کو وہ میری طرف سے اشارہ بھی سمجھے۔ در حالیکہ میرا کچھ مطلب نہ تھا۔ لیکن مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ رفیق نے ان سے جا کر یہ کہہ دیا کہ اب وہ اس میں میری خوشنودی کے متلاشی ہیں۔
لیکن واقعہ یہ بھی ہے کہ والد صاحب ان پر ضرورت سے زیادہ نگرانی رکھتے تھے۔ یہ نہیں چاہتے تھے کہ جائیداد کے معاملہ میں ذرہ بھر بھی وہ دخل دیں۔ اکثر کاشتکار اور کرایہ دار حامد خاں سے بے جا طور پر شکایت کرتے مگر وہ کچھ دخل نہ دے سکتے۔ گویا ویسے بھی حامد خاں علیحدگی ہی چاہتے تھے۔ پھر کارندوں اور کار پردازوں کے بے جا مظالم یا سختیوں کے حامد خاں قطعی خلاف تھے اور ان کی بے ضابطہ حرکتوں سے نالاں تھے اور یہ کارندے حامد خاں کی مطلق پروا نہ کرتے تھے۔ والد صاحب کا جی چاہا جتنا روپیہ ہاتھ اٹھا کر دے دیا۔ اگر کسی کارندے کا جی چاہا اس نے کہہ دیا کہ روپیہ نہیں ہے۔ کیا کسی کی مجال کہ کاغذ دیکھ سکیں۔ ظاہر ہے کہ حامد خاں سے زیادہ ان کو کون عزیز تھا۔ بیٹے کی طرح وہ ان کی نگرانی فرض سمجھتے اور چاہتے یہ تھے کہ بیٹے ہی کی طرح شادی کے بعد بھی گھر پر ہی رہیں اور یہ تمنا کچھ بیجا نہ تھی۔ مگر صورت حال اب دوسری تھی۔ ابتدا یا انتہا اس کی یہ سمجھیے کہ حامد خاں کب سے مجھ سے اکیلے میں ملنے کا موقع ڈھونڈھ رہے تھے اور جیب میں کوٹھی کا نقشہ لیے پھرتے تھے۔ اِدھر مجھ کم بخت کو معلوم تک نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔
افضل بھائی کے آنے سے ان کو موقع مل گیا اور تیسرے روز وہ موقع پاکر سیدھے باغ میں چلے آئے جہاں افضل بھائی بیڈمنٹن فرما کر ہم لوگوں کا ہنسی کے مارے برا حال کیے دے رہے تھے۔ میں ایک لمبی سی بنچ پر ایک ہاتھ باہر کی طرف رکھے بیٹھی تھی۔ پاس ہی بہن حشمت بیٹھی تھیں کہ پیچھے سے حامد آئے۔ یہ باغ کا وسیع احاطہ زنان خانے ہی میں تھا مگر دوسرا دروازہ باہر بھی تھا جو کھلا رہتا تھا۔ مگر کوئی یہاں نہیں آتا تھا۔ حامد خاں ادھر سے آگئے۔ میرا داہنا ہاتھ بنچ کے تکیہ پر اس طرح تھا کہ میں کروٹ سے بیٹھی تھی۔ پیچھے سے حامد خاں آئے اور کھڑے ہی کھڑے انہوں نے ایک رقعہ میرے ہاتھ میں چپکے سے دیا ایسے کہ میں چونک پڑی۔ ایک دم سے مڑ کر جو دیکھتی ہوں تو حامد خاں! حشمت آپا نے بھی مڑ کر دیکھا۔ میں نے گھبرا کر جھٹ سے رقعہ مٹھی میں بند کر لیا۔ حشمت آپا نے کہا، ’’آؤ۔۔۔‘‘
’’نہیں نہیں۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔‘‘ کہہ کر حامد خاں چلائے، ’’میں تو افضل بھائی سے ملنے آیا تھا۔۔۔‘‘ افضل بھائی چیختے رہ گئے۔ مگر حامد خاں نے کہا کہ ’’ابھی آتا ہوں۔‘‘ مگر وہ پھر نہ آئے۔ میں نے یہ رقعہ چھپا لیا۔ حامد خاں کا یہ پہلا خط تھا۔ میں نے پڑھا نہیں لیکن پڑھنے کے لیے بیتاب تھی۔ کچھ عجیب ہی طرح کا احساس تھا۔ مجھ سے نہ رہا گیا اور میں اٹھ کر چل دی، یہ کہہ کر کہ ابھی آئی۔ دوڑی ہوا کی طرح اور اپنے کمرے پر پہنچی۔ رقعے کو کھولا۔ بہت مختصر تھا۔ انگریزی میں تھا، مائی ڈیئر سلیم، کل شب کھانے سے قبل مجھ سے تم اسی جگہ ضرور مل لو۔ مجھے تم سے بے حد ضروری کام ہے۔ مجھے امید ہے کہ ناامید نہ کروگی۔ تمہارا حامد۔
میں نے فوراً طے کر لیا کہ ملوں گی اور ضرور ملوں گی۔ کیوں نہ ملوں۔ شام کی تفریح کے بعد اور کھانے سے قبل افضل بھائی والدہ صاحبہ کے پاس ہوتے ہیں یا اپنے کمرے میں اور میں اپنی طرف۔ یہی موقع ہو سکتا ہے۔ اس خط کو میں نے بار بار پڑھا۔ کس قدر سادہ اور دلکش تھا۔ ایک چچا ہیں۔ جب میں چھوٹی سی تھی تو انہوں نے مجھے چھیڑنے کو میرا نام سلمیٰ سے سلیم رکھ دیا۔ میں نے کہا میرا نام سلیم نہیں ہے مگر وہ مجھے سلیم کہتے تھے۔ یہ بات بالکل عارضی تھی مگر حامد خاں کو یاد تھی۔ جو انہوں نے سلیم لکھا۔ در اصل یہ بھی میرے گواہوں میں تھے کہ سلیم نہیں ہوں۔ مگر اس وقت انہوں نے خود سلیم لکھا تھا۔ کیا اس لفظ میں کچھ جذبات بھی پوشیدہ تھے؟ میں نہیں کہہ سکتی۔ لیکن میرے لیے اس ایک لفظ میں دفتر تھا۔ ایسا کہ میں دیر تک نہیں بلکہ رات گئے تک اور دن بھر اسی لفظ کے تخیل میں ڈوبی رہی۔ سوچتی اور دل ہی دل میں لفظ دہراتی ’’سلیم!‘‘ معلوم ہوتا کہ لبوں نے بھی اس لفظ کو دہرایا ہے۔ اس خط میں کچھ بھی نہ تھا۔ اگر تھا تو یہی لفظ سلیم جس نے اسے میرے لیے ایک دلچسپ خط بنا دیا۔
کھانے سے کوئی آدھ گھنٹہ قبل میں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور افضل بھائی والدہ صاحبہ کے ساتھ باتوں میں مشغول تھے اور مہمان کوئی تھا نہیں۔ میں تیزی سے اتر کر باغ میں چلی گئی۔ بیڈمنٹن کورٹ کے پاس لکڑی کی بنچ تھی۔ میں جا کر اس پر بیٹھ گئی۔ وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ باغ میں اندھیرا تھا مگر سڑک کی روشنی اورگھر کی بلند روشنی کی شعاعیں ایک عجیب نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ میں دو منٹ ہی بیٹھی ہوں گی اور دل میں قدرے گھبراہٹ سی تھی، لمحے گھنٹہ معلوم ہوئے اور میں حیرت سے دروازے والی سمت کی روش پر نظر جمائے تھی کہ پشت کی طرف سے آہستہ سے دلکش لہجہ میں آواز آئی، ’’سلیم۔۔۔‘‘ میں اندھیرے میں کھڑی ہوگئی۔ یہ آواز تیرتی ہوئی روح میں گرمی سی پیدا کرتی چلی گئی۔
’’السلام علیکم!‘‘ قریب آکر آہستہ سے کہا۔ میں کچھ نہ بولی تو پھر کہا۔ میں نے جواب دیا، ’’وعلیکم السلام۔‘‘ میں قطعی نہیں سمجھی تھی کہ میں اس قدر پریشان ہو جاؤں گی۔ شرم کے مارے ایسی حالت ہو جائے گی۔ نہ میں مصافحہ کر سکی، نہ باوجود اندھیرے کے سر اٹھا سکی۔
’’لا حول و لا قوۃ۔‘‘ حامد خاں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ پکڑ کر جھٹک کر کہا، ’’خدا کی قسم یہ کیا حماقت ہے۔‘‘ مجھے اتنی شرم آئی کہ بائیں ہاتھ سے میں نے آنکھ ملتے ہوئے ذرا مڑتے ہوئے کہا، ’’مجھے جانے دیجیے۔۔۔‘‘ اب ذرا صورت حال کی نزاکت پر غور کیجیے اور افضل بھائی کی ’’سیر کہسار‘‘ اور زندہ دلی پر ایک نہایت ہی سریلی آواز آتی ہے، قریب ہی سے، ’’اور ہم بادبان ہو۔۔۔ و۔ و۔ و۔ تے۔۔۔ اے۔ اے تو دُل۔۔۔ سن تو لتادے۔۔۔ تے۔‘‘ (اگر ہم باغ بان ہوتے تو گلشن کو لٹا دیتے۔ )
(کسی کی آہٹ سن کر) ’’تون؟۔۔۔‘‘ خاموشی۔ حامد خاں تو اس دخل در معقولات سے گھبرائے لیکن میرے لیے ہنسی کا ضبط کرنا دشوار ہوگیا۔ افضل بھائی کو شبہ تھا کہ کوئی ہے۔ اس لیے اپنا مخصوص تحقیقاتی لفظ ’’تون‘‘ فرمایا تھا۔ مگر شبہ جاتا رہا تو فوراً الاپے، ’’اور ہم بادباں ہوتے۔۔۔‘‘ اندھیرے میں قریب ہی سے کسی جھاڑی میں سے رفیق نے جملہ پورا کیا، ’’تو کشتی میں بندھے ہوتے۔‘‘
افضل بھائی کے منہ سے ایک عظیم الشان ’’تون‘‘ نکلا اور اندھیرے میں رفیق کی ہنسی کی آواز۔ میں بھی ضبط نہ کرسکی۔ چھڑا کر بھاگی اور ادھر حامد خاں جل بھن کر کوئلہ ہوکر لا حول بھیجتے ہوئے بھاگے کیونکہ ہنسی کے سبب ہنگامہ ہونے لگا۔ میں اسی چپقلش میں چاہتی تھی کہ چپکے سے نکل جاؤں مگر بھائی افضل نے برآمدے میں داخل ہوتے مجھے دیکھ لیا۔ کہنے لگے، ’’معلوم ہو دیا۔۔۔ تون ہے۔‘‘
دوسرے روز صبح کا ذکر ہے۔ ناشتہ ہم دونوں بہنوں نے اپنے کمرے میں کیا۔ رفیق والدہ صاحبہ کے پاس چلی گئی، میں تنہا بیٹھی تھی کہ کمرے کا پردہ اٹھا اور بھائی افضل آگئے۔ میں نے ہنس کر کہا، ’’آئیے آئیے۔ بھائی آئیے۔‘‘ افضل بھائی نے محبت سے ہاتھ بڑھایا۔ میں نے گرمجوشی سے ہاتھ میں ہاتھ لے کر ان کو اصرار کر کے ایک نیچی سی گدی دار کرسی پر بٹھایا۔ افضل بھائی نے اپنے دلچسپ انداز میں باتیں شروع کردیں اور بہت جلد رات والے یعنی ’’بادبان‘‘ والے قصے کو شروع کر کے مجھے شوخ، شریر، چلبلی وغیرہ وغیرہ کہہ کر اول تو بڑی محبت سے مارنے کو کہہ کر میری گردن دبائی اور جب میں نے ہنس کر کہا کہ ’’افضل بھائی اب نہیں چھیڑوں گی۔‘‘ تو میری گردن چھوڑ کر ہلکے سے میرے گال پر محبت سے طمانچہ مارا۔ میں نے کندھے سے بچانے کی کوشش کی تو کہنے لگے، ’’تیرا بدن دَرَم ہے‘‘ یہ کہہ کر ہاتھ میری پیشانی پر رکھا۔ میں نے سوکھا منہ بنا کر کہا، ’’بخار ہے‘‘ اور ہاتھ پیش کیا۔ افضل بھائی نے میری نبض دیکھی۔ بولے، ’’چل جھوتی۔‘‘ یہ کہہ کر پھر ماتھے کو میرے دیکھا۔ میں نے ہنس کر کہا، ’’افضل بھائی مجھے ٹھنڈا بخار ہے۔‘‘
’’تھندا بتھار!‘‘ تعجب کے لہجہ میں افضل بھائی نے کہا۔ مجھ سے ہنسی ضبط نہ ہوئی تو آپ نےپھر میرے گال پر طمانچہ مارا۔ میں نےافضل بھائی کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور ان کا چہرہ دیکھ کر میرے تعجب کی انتہا نہ رہی! مجھے کچھ شبہ سا ہوا۔ بیان نہیں کر سکتی۔ کچھ پریشان سی ہوگئی اور بیٹھ گئی۔ افضل بھائی نے آہستہ سے کہا، ’’سلمیٰ۔۔۔‘‘ میرا ہاتھ گرمجوشی سے اپنے ہاتھ میں لیا اور۔۔۔ خدا کی پناہ! یہ واقعہ تھا کہ انہوں نے ایک زریں تجویز پیش کردی یعنی یہ کہ ان کو مجھ سے محبت ہے، بقول ان کے سچی محبت ہے۔ میرے ہوش جاتے رہے۔ افضل بھائی مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
پہلے تو میں صدمے کے سبب سے کچل کر رہ گئی۔ ذرا امکان پر جو غور کیا تو ایک زریں پہلو نظر آیا تو عرض نہیں کر سکتی کہ کس طرح صدمہ جاتا رہا۔ خوش قسمت ہوگی وہ لڑکی جس سے افضل بھائی کی شادی ہو۔ بھلا ایسا مشغلہ کبھی ہاتھ آتا ہے۔ اس تجویز کی نوعیت اور حماقت پر غور نہ کرنا ہی ستم ہو گیا۔ سب شرم و حجاب جاتا رہا۔ ہنسی کی سوجھی۔ میں نے کہا، ’’افضل بھائی آپ مجھ سے شادی کریں گے! مجھے منظور ہے مگر ایک شرط پر۔‘‘
یہ کہا ہی تھا کہ رفیق نے پردہ اٹھاکر جھانکا۔ افضل بھائی فوراً بولے، ’’تون؟‘‘ اور میں نے جملہ پورا کیا، ’’وہ شرط یہ کہ اس مردی سے بھی کرنا پڑے گی۔‘‘ میں نے رفیق کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ رفیق اندر آئی۔ اس نے کہا، ’’اور کیا۔۔۔؟‘‘ اب نہ پوچھئے افضل بھائی کا حال۔ سخت گھبرائے۔ پھر میں بھلا ماننے والی تھی۔ میں نے کہا، ’’کم بخت۔ افضل بھائی سے شادی کرتی ہے۔۔۔؟‘‘ رفیق نے واقعی بگڑ کر کہا، ’’کیا بدتمیزی ہے۔۔۔‘‘ افضل بھائی پھٹ پڑے، ’’چپ چپ۔۔۔ تھبردار۔۔۔ اچھا تو میں جاتا ہوں۔۔۔ بات سنو۔‘‘ میں نے یہ بات سنی کہ مجھے خاموش رہنا چاہیے۔ میں نے کہا، ’’میں خاموش تو رہوں گی مگر۔۔۔‘‘
اتنا ہی کہا تھا کہ افضل بھائی بھاگ گئے۔ میں نے رفیق سے جو کہا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پہلے تو یقین نہ کیا۔ لیکن جب پوری بات سنی تو اس نے کہا، ’’مرن جوگنی۔ اس خبر کو اپنے ہی تک رکھیو۔ نہیں یاد رکھ ایک انار اور سو بیمار والا معاملہ ہوجائے گا۔ تجھ میں کیا لال لگے ہیں۔‘‘ اس کے بعد جو غور کیا تو واقعی ہم دونوں کو بہت رنج پہنچا۔ افضل بھائی سے ہمیں ایسی توقع نہیں تھی۔ انہوں نے ایسی بدتمیزی اور بیہودگی کی ہے جس کو ہمارے لیے برداشت کرنا دشوار تھا۔ اس سے ہمیں روحانی تکلیف پہنچی۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی اپنا پیارا مر گیا۔ سوال یہ تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ بہت سوچا۔ ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر تدبیر سوچی۔
بالآخر ایک نہایت ہی قابل اعتراض تدبیر ذہن میں آئی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ لڑکیوں کو ایسے نہیں کرنا چاہیے اور انتہا سے زیادہ بے شرمی اور بے حیائی ہوگی۔ لیکن سوال یہ تھا کہ ہم تو یہی چاہتے تھے کہ افضل بھائی ہمارے بارے میں سوا اس کے کوئی دوسری رائے نہ قائم کریں۔ لہٰذا ہم دونوں نے سوچ لیا کہ خواہ کچھ ہو ہم دونوں چل کر افضل بھائی سےکیوں نہ کہیں کہ شادی ہم سے کرنا پڑے گی۔ ہمارے حقوق آپ پر زیادہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ سوچنے اور کرنے میں فرق ہے۔ مگر نہیں۔ ہمیں کرنا تھا۔ چنانچہ ہم دونوں نے پہنچ کر افضل بھائی کو گھیر کر ان کو جتا دیا۔ رفیق نے کہا کہ ’’پہلا حق میرا ہے اور مجھ سے شادی کرنا پڑے گی اور اس چڑیل سے مت کیجیے گا۔‘‘ میں نے کہا، ’’اس مردی سے بھول کر شادی نہ کیجیے گا۔ روٹی پکانا یہ نہیں جانتی۔ کام چور الگ ہے اور کیا فائدہ جو ناک چوٹی کاٹ کر اسے نکالنا پڑے۔‘‘ اور پھر میں نے زور دے کر کہا، ’’میں آپ کو روزانہ میٹھے ٹکڑے پکا کر کھلاؤں گی۔‘‘
رفیق نے کہا، ’’جھوٹی چڑیل کہیں کی، سب خود کھا جائے گی۔۔۔ آپ اس کی باتوں میں نہ آئیے گا۔‘‘ افضل بھائی کے ہوش اڑ گئے۔ رفیق نے وہ ملامت کی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ ’’میں نہیں سمجھتی تھی کہ آپ مجھے اس لائق نہ سمجھیں گے اور اس مردی پر عاشق ہو جائیں گے۔ صورت نہ شکل۔ بھاڑ میں سے نکل۔ پھوہڑ یا کہیں کی۔ جہاں جائے گی مار جوتیاں نکالی جائے گی، بڑی آئی وہاں سے۔‘‘ افضل بھائی بچے نہ تھے۔ ان کے ہوش جاتے رہے۔ اٹھ کر بھاگنے جو لگے تو میں نے ہاتھ پکڑا لیکن اماں جان کی آواز جو آئی تو ہم نے چھوڑ دیا۔ ہم دونوں اپنے کمرہ میں آئے۔ ہنسنے کی کوشش کی مگر بجائے ہنسی کے غصہ اور رنج تھا۔ رفیق اپنے گھر جانے والی تھی۔ مگر اس وقت رک گئی اور ہم دونوں نے تہیہ کر لیا اور اس بیہودہ افضل بھائی سے اب نہ ملیں گے۔ شام کو رفیق چلی گئی۔
شام کا ذکر ہے کہ گھر میں ایک اضطراب و ہیجان کی صورت پیش ہو گئی۔ والد صاحب بار بار کہہ رہے تھے ’’بڑے شرم کی بات ہے۔‘‘ عجلت اور پریشانی سے ٹہل رہے تھے۔ میں کچھ نہ سمجھ سکی سوا اس کے کہ حامد خاں کا معاملہ ہے۔ اسی وجہ سےمیں چپ رہی۔ مگر میرے دل کو فکر لگ گئی۔ ابا جان امی جان کو لے کر علیحدہ باغ کی طرف والے برآمدہ میں گئے۔ افضل بھائی اپنے کمرے میں بند تھے اور میں چپکے سے غسل خانے میں پہنچ کر لگی کان لگا کر باتیں سننے۔ جو کچھ بھی میں نے سنا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’بڑی شرم کی بات ہے!‘‘ کیونکہ حامد خاں دو دن سے تقسیم جائیداد کے لیے جھگڑ رہے تھے جس کا نتیجہ آج یہ نکلا کہ ان کے وکیل کانوٹس آیا ہے کہ تین یوم کے اندر اندر حساب فہمی کرکے چپے چپے کا بٹوارہ کر دو۔ بڑے شرم کی بات ہے۔
ذرا غور فرمائیے کہ ایک شخص بیٹے کی طرح ایک لڑکے کو پرورش کرتا ہے۔ اس کی جائیداد اپنی جائیداد سمجھ کر دیکھتا بھالتا ہے۔ حد یہ کہ اپنی بیٹی دینا منظور کر لیتا ہے اور لڑکے کی بدتمیزی ملاحظہ ہو کہ اس محسن کے احسانات کو تسلیم کر کے کہتا ہے کہ ’’اکبر کے ساتھ جو بیرم خاں نے کیا۔ اس سے انکار نہیں مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ بجائے اکبر کے دلی کے تخت کے مالک خانخاناں رہیں۔ غضب ہے خدا کا۔‘‘ والد صاحب نے کہا، ’’اس بدتمیز چھوکرے نے میرا نام بیرم خان رکھ دیا۔ لوگوں سے کہتا ہے کہ میں بیرم خاں ہوں!‘‘
نتیجہ ظاہر ہے، ’’ہم اپنی لڑکی ایسے سرکش لڑکے کو کیوں دیں!‘‘
یہ الفاظ کتنے تکلیف دہ تھے۔ مجھے تسلیم ہے کہ حامد خاں نے بدتمیزی کی۔ مگر۔۔۔ میں کیا کہہ سکتی تھی کیونکہ واقعی ’’بڑے شرم کی بات تھی۔‘‘ سوال اب یہ تھا کہ ہم اپنی لڑکی کیوں دیں؟ ظاہراً کوئی وجہ نہیں تھی اور والد صاحب نے بھی پوری زمیندارانہ شان کے ساتھ طے کر لیا کہ حامد خاں کو اس محسن کشی کا صلہ اچھی طرح دیں گے۔ زمینداروں کی آپس کی لڑائی اور مقدمہ بازی کے نتیجوں سے میں خوب واقف تھی۔ زیادتی تھوڑی بہت والد صاحب کی بھی تھی۔ کوئی وجہ نہیں کہ روپیہ جو حامد خاں کا امانت ہے کیوں نہ حامد خاں کے حوالے ہو۔
ایک خود مختار نوجوان پیسے پیسے کے لیے ہاتھ پھیلائے۔ مقررہ مہینے تک یکمشت نہ ملے۔ ضرورت اب ہے اور بنک سے نکال کر دینے کے بجائے انتظار ہے کہ گاؤں سے رقم آئے، جب ملے۔ کارندوں کے پاس رقعہ لیے دوڑ رہے ہیں اور روپیہ نہیں ملتا۔ حد ہوگئی۔ حامد خاں کہتے ہیں کہ مجھے مقررہ رقم مہینے کے مہینے دے دیجیے مگر ناممکن۔ قسطیں کر کے ملتی ہے۔ یہ سب کیوں؟ محض حامد خاں کے فائدے کے لیے۔ میں سن کر جلدی سے اپنے کمرہ میں چلی آئی اور گھنٹوں اسی فکر میں رہی۔ افضل بھائی دوسرے ہی روز چلے گئے، اپنی شادی کا میرے ساتھ طے کر کے اس شرط پر کہ اپنی کل جائیداد مہر میں دے دیں گے۔ مگر اس کا کسی کو علم نہیں ہوا۔
اب قصے کو بیچ سے چھوڑ کر مختصر کرتی ہوں۔ مقدمہ بازی شباب پر پہنچی۔ ادھر ابا جان نے روپیہ بند کر دیا اور ادھر کاشتکاروں نے انکار کر دیا۔ دوران مقدمہ خرچہ ملنے کے معاملے کو وکیلوں نے دھکیل دھکیل کر التوا میں ڈالا۔ نتیجہ یہ حامد خاں جل کر دیہات پہنچے، وہاں کاشتکاروں نے گستاخی کی۔ حامد خاں نے مارا تو ابا جان نے فوجداری کا مقدمہ کاشتکاروں سے چلوا دیا اور مقدموں سے مقدمے پیدا ہونے کی بنیاد پڑی۔ حامد خاں نے بھلا یہ زکیں کب اٹھائی تھیں۔ مارے غصے کے دیوانے ہوگئے اور اسی دوران میں ان کو اور ان کو کیا، سب کو یہ معلوم ہوا کہ میری شادی افضل بھائی سے ہوگی۔ میرے اوپر تو گویا بجلی گری۔ افضل بھائی نہ تو غریب تھے نہ بدصورت تھے مگر بخدا افضل بھائی تھے۔ میرے ہوش ٹھکانے نہ رہے، ماں باپ کی اکلوتی لڑکی۔ جس کے ساتھ شادی ٹھہری وہ بھی اکیلا۔ دونوں مل کر رئیسوں کے رئیس ہو جائیں۔ ساتھ کے کھیلے ہوئے، ایک دوسرے سے واقف۔ یہ تو ستم سا معلوم ہوا۔ مگر میں کیا کر سکتی تھی، دیوانی ہوئی جاتی تھی جب ان جھگڑوں پر غور کرتی تھی۔
کئی دفعہ سوچا کہ حامد خاں کو خط لکھوں۔ مگر کیا لکھوں؟ بارہا کوشش کی مگر بیکار۔ حتی کہ ادھر تو یہ خبر آئی کہ حامد خاں ایک آزاد خیال عیسائی افسر کی لڑکی کے ساتھ موٹروں پر دوڑے پھرتے ہیں اور عجیب نہیں کہ نکاح کر لیں گے اور ادھر افضل بھائی کے یہاں سے منگنی کے تحائف وغیرہ بھی آگئے اور اعلان بھی کر دیا گیا۔ طے یہ پایا کہ ڈیڑھ مہینے بعد شادی! کیا یہ ممکن تھا۔ میں بغاوت پر آمادہ ہوگئی مگر کیا کر سکتی تھی۔ شریف گھرانے کی لڑکی تھی، ’’بڑے شرم کی بات‘‘ ہوتی۔ اب والدین بیچاروں کی کیا خطا۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ افضل ایسا لڑکا ہے کہ کسی لڑکی کو ناپسند ہی نہیں ہو سکتا۔ سب پسند کرتی ہیں، وہ ہے بھی ایسا۔ بڑا بھولا (یعنی احمق؟) لڑکیاں تو اس پر سب فدا ہیں۔ جب میں نے دیکھا کہ اب کوئی چارہ نہیں تو میں نے ہمت کر کے ایک خط حامد خاں کو لکھا،
جناب خان صاحب! السلام علیکم۔ ’’بڑے شرم کی بات ہے‘‘ کہ آپ نے نہ تو ابا جان کا خیال کیا اور نہ میرا۔ میں آپ کے ساتھ کھیلی ہوئی تھی اور کچھ نہیں تو ساتھ کھیلے کے پاس کے سبب میرا بھی کچھ آپ پر حق تھا۔ مگر ’’بڑے شرم کی بات ہے‘‘ کہ نہ تو آپ کو اپنی بات کا پاس ہے اور نہ میری بات کا پاس ہے۔ کیا یہ آپ کی مقدمہ بازی کسی طرح بھی میرے لیے مفید ہوسکتی ہے؟آپ کی سلمیٰ۔
اس کا جواب آیا، ڈیئر سلیم۔ تمہارا خط مجھ کو ملا۔ بہتر ہے کہ زخموں کو یونہی رہنے دو۔ چچا صاحب سے میری صلح ناممکن۔ خواہ مر جاؤں مگر صلح ناممکن۔ تم مجھے بدستور عزیز ہو اور مجھے الزام دینا بے کار ہے۔ خطا میری مگر غلطی چچا صاحب کی ہے۔ مگر کیا ہوا۔ بقول کسی کے خدا کی مصلحت سے کون واقف ہے۔ اس میں بھی کوئی بہتری تھی اور ہے۔ خدا مبارک کرے۔ تمہارا بہی خواہ حامد۔
میں نے یہ خط دیکھا تو عرض نہیں کر سکتی۔ جان ہی تو میری جل گئی۔ صدمہ کم اور غصہ زیادہ آیا۔ میں نے بھی حسب ذیل خط لکھ مارا، جناب من! آپ کا گرامی نامہ ملا۔ ’’بڑے شرم کی بات ہے‘‘ کہ آپ ایسی ناشائستہ بات ایک بیچاری لڑکی کو لکھتے ہیں۔ معاف کیجیے گا میری بے شرمی کو، کیا نوجوانوں کا یہی شیوہ ہے۔ آپ کو شرم نہ آئی لکھتے کسی کو؟ اپنی ساتھ کھیلی اور اپنی منسوبہ کو یہ لکھتے ہیں کہ مبارک ہو۔ کاش آپ زندہ نہ ہوتے۔ کوئی غیور نوجوان اس کو گوارا کر سکتا ہے۔ کیا اس ذلت کو گوارا کر سکتا ہے جس کے آپ اہل ثابت ہوئے۔ کاش کہ مجھے موت آ جاتی۔ قبل اس کے کہ میں اس شخص کا دل آزار خط پڑھوں جو میرے خیالات کا مرکز رہ چکا ہو۔ مجھ سے زیادہ بدقسمت لڑکی غالباً کوئی نہیں ہوگی۔ مجھے سرد مہری کی شکایت اتنی نہیں ہوئی جتنی یہ معلوم کر کے کہ آپ کی حمیت کیا ہوئی۔ کاش کہ مجھ کو موت آجائے۔ آپ کی خیر اندیش۔
اس کا جواب ایک پھٹے ہوئے کاغذ پر بغیر آداب و القاب کے آیا، ’’یہ تو ٹھیک ہے۔ مگر میں کر ہی کیا سکتا ہوں۔ مجھے خود افسوس ہے۔ کسی کی جان تو لینے سے رہا۔ فولاد جھک نہیں سکتا۔ میں خود عاجز ہوں۔‘‘
میں نے اس کا جواب دیا، خاں صاحب! السلام علیکم۔ فولاد نہ جھکے مگر ٹوٹ سکتا ہے اور رہ گئے لاچار اور بیچارے جو کچھ نہیں کر سکتے۔ بہتر ہے کہ وہ نوجوان لڑکیوں کے خیالوں کی بستی کو ویران رہنے دیں۔ ’’بڑے شرم کی بات ہے۔‘‘ حیف ہے کہ ایک غیور نوجوان عذر خواہاں اچھی جانتا ہے۔ کاش میں تمہاری جگہ ہوتی اور تم میری جگہ۔ تب غالباً کچھ بتا سکتی۔ خیر غالباً میری موت کی خبر تسکین کا باعث ہوگی۔ غلطی ہوئی۔ اب نہ لکھوں گی، خدا حافظ۔ خاکسار سلمیٰ۔
اس خط کو لکھنے کے بعد ہر ممکن صورت سے میں نے اپنی رضامندی کا اظہار والدین سے کروا دیا تھا۔ مگر اس کی اہمیت کیا تھی میں خاموش تھی۔ کیا غل مچانے لگتی۔ میں عجیب مایوسی کے عالم میں تھی۔ سوچتی تھی کہ حامد خاں کر بھی کیا سکتے ہیں۔ وہ اور بات ہے کہ میں ان کی جگہ ہوتی تو کہہ نہیں سکتی کیا کرتی۔ مگر یہ طے ہے کہ یہ صورت ہرگز نہ پیش آتی۔ خواہ کچھ ہوجاتا۔ میں اسی شش و پنج میں تھی کہ حامد خاں کا پھر ایک مختصر سا پرزہ آیا، ’’آپ نے اپنے ایک گزشتہ خط میں لکھا تھا کہ آپ کے خیالات کا مرکز رہ چکا ہوں۔ براہ کرم مطلع فرمائیں اب کون ہے؟‘‘ میری زبان سے یہ جملہ پڑھتے ہی نکل گیا، ’’تم۔‘‘ اور یہی میں نے خط کے حاشیہ پر لکھ دیا اور واقعہ بھی یہی تھا۔ یہ خط و کتابت اس طرح ہوتی تھی کہ پہلا خط جو میں نے بھیجا تھا۔ اس کا جواب باغ کی دیوار پر اینٹ سے دبا دینا اور اسی جگہ میں خط رکھ دیتی تھی۔ اس خط کا جواب آیا،
مائی ڈیئر سلیم۔ تم میری ہو اور اب دیکھنا ہے کہ کس میں ہمت ہے جو مجھے روک سکے۔ میں کل ہی چچا صاحب کو الٹی میٹم دیتا ہوں۔ اگر نامنظور ہو تو بہتر ہے کہ رات کو باغ کے کمپاؤنڈ والا دروازہ کھول دینا اور باغ کی طرف کے غسل خانے کا دروازہ بھی کھول دینا۔ بولو کھول دوگی؟ اگر ہاں تو ابھی جواب لکھ دو۔ فقط۔ میں نے اسی خط کےحاشیہ پر لکھ دیا۔ ’’دروازہ کھول دوں گی مگر یہ تو بتاؤ کہ کہاں ملوگے؟ جواب جلد دیجیے۔‘‘ صرف آپ کی سلمیٰ۔
دوسرے روز کا ذکر ہے کہ حامد خاں نے اپنے وکیل کو اور دو دوستوں کو بھیجا کہ شادی کی تاریخ مقرر کریں۔ نیز یہ کہ میری شادی دوسری جگہ ناممکن ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ یعنی والد صاحب نے ان پیغامبروں کو بغیر پٹوائے نکالا۔ میں نے حسب وعدہ رات کو کھانا کھانے کے بعد باغ کا دروازہ کھول دیا اور غسل خانے کا دروازہ کھول دیا۔ رات گئے بلکہ ایک بجے رات تک نظر جمائے دیکھتی رہی۔ مگر کچھ پتہ نہ چلا نہ جواب آیا۔ رات کے ایک بجے بعد میں سوگئی۔ سردی کا زمانہ تھا۔ ایک چھوٹا سا لیمپ میرے کمرہ میں جل رہا تھا اور میں غافل پڑی سو رہی تھی۔ کروٹ سے سوتی تھی کہ میری آنکھ کھلی۔ حامد نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر میرا منہ چوم لیا اور میں اٹھ بیٹھی۔ میرے حواس باختہ ہوگئے۔ جلدی سے میں نے دوپٹہ اوڑھا۔
’’یہ کیا؟‘‘ میں نے برا مانتے ہوئے کہا، ’’بڑے شرم کی بات ہے۔‘‘ میں نے تیوری پر بل ڈال کر سختی سے کہا۔
’’جلدی چلو۔‘‘ حامد خاں نے کہا۔
’’کہاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
وہ بولے، ’’موٹر پر۔ موٹر تیار ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’بڑے شرم کی بات ہے۔ غالباً آپ شریف ہیں۔‘‘
حامد خاں نے کہا، ’’غالباً آپ کو چلنا پڑے گا۔‘‘
میں نے کہا، ’’ناممکن۔ بہتر ہے کہ آپ چلے جائیں۔‘‘
حامد خاں نے کہا، ’’بہتر ہے آپ چلی چلیں۔ ورنہ۔۔۔‘‘
میں نے کہا، ’’ورنہ کیا۔۔۔؟‘‘
حامد خاں نے کہا، ’’پھر تم نے غلط لکھ دیا۔ تمہارے خیالوں کا مرکز کون۔۔۔‘‘ میں نے شرم سے سر جھکا لیا۔
حامد خاں نے ہاتھ جھٹک کر کہا، ’’بولو۔ بولو۔۔۔‘‘ میں نے کہا دبی زبان سے، ’’تم۔‘‘
حامد خاں نے کہا، ’’بخدا میں تم کو ابھی لے جاؤں گا۔ چلو۔۔۔‘‘ میں نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا، ’’خدا کے واسطے جائیے۔ بڑے شرم کی بات ہے۔۔۔‘‘
حامد خاں نے جملہ پورا کیا کہ ’’میری پیاری بیوی کو کوئی اور لے جائے! ناممکن۔‘‘ یہ کہہ کر مجھے پھول کی طرح اٹھا لیا اور ملازمہ کی آواز دالان سے آئی، ’’کون؟‘‘ میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ خدا کی پناہ! ملازمہ نے گھر سر پر اٹھا لیا تو چل میں چل۔ مگر حامد خاں کے ساتھ تیرہ چودہ مسلح آدمی تھے۔ دم کے دم میں بھاگڑ مچ گئی، چیخوں سے کوٹھی گونج اٹھی۔ دوفیر ہوئے سب کے سب ڈر گئے۔ والد صاحب کے کمرے میں اور جگہ جگہ نوکروں کے سر پر پستول لیے ساتھی کھڑے تھے۔ پستول کی آواز جو ہوئی تو نوکروں نے اپنی اپنی کوٹھریوں کو بند کرکے چیخنا شروع کیا۔ اس دوران میں حامد خاں مجھے لے اڑے۔ باوجود یکہ میں خوب چیخی، تڑپی، چلائی۔ مگر توبہ کیجیے کون چھوڑتا تھا۔ چشم زدن میں موٹر میں ڈال کر جو لے کے مجھے چلے ہیں تو اپنے ایک دوست کے یہاں بارہ میل پر پہنچے۔ یہ ایک قصبہ اور ریلوے اسٹیشن تھا۔ یہاں قاضی وغیرہ سب موجود تھے۔
صبح چار بجے تھے۔ میں روتی جاتی تھی اور کہتی تھی، ’’بڑے شرم کی بات ہے۔‘‘ مگر نکاح تو ہونا ہی تھا۔ نکاح کا رجسٹر آیا تو میں نے دستخطوں سے انکار کر دیا۔ جب حامد خاں نے میرے پیر پکڑ لیے اور کہا، ’’ظالم۔ کیا بغیر نکاح کے رہنا ہے۔‘‘ میں نے دستخط کردیے۔ حامد خاں اسی وقت مجھے واپس اپنے گھر لے آئے۔ شہر میں تہلکہ بپا تھا۔ میں رو رہی تھی۔ ’’بڑے شرم کی بات ہے کہ مجھے حامد خاں اس طرح پکڑ لائے۔‘‘
کوئی بارہ بجے گھر پر مجسٹریٹ اور مسلح سپاہی اور ابا جان آگئے۔ حامد خاں نے کہا کہ میں برضا و رغبت آئی ہوں۔ مجسٹریٹ نے بیانات لینے کو کہا۔ ایک بند کمرہ میں مجسٹریٹ نے بیان لیے۔ والد صاحب موجود تھے۔ خود سوچیے۔ میں کیا بیان دیتی۔ میں نے سچ سچ بیان دے دیے، وہ یہ کہ حامد خاں مجھے جبراً گھر سے اٹھا لائے، زبردستی مجھ سے نکاح کر لیا۔ مجسٹریٹ نے حکم دیا کہ میں والد صاحب کے ساتھ جا سکتی ہوں۔ والد صاحب نے مجھے ساتھ لیا اور ادھر حامد خاں پولیس حراست میں آگئے۔ گھر پر والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے ساری کیفیت پوچھی۔ میں نے سب بتا دیا رو رو کر۔ یہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ دروازے کس نے کھولے۔ پولیس والوں نے ملازموں کو شبے میں کھینچا مگر بیکار تھا۔ لہٰذا پھر رہنے دیا۔
قصہ کو بہت مختصر کرتی ہوں۔ حامد خاں کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ میں نہیں بیان کرسکتی کہ میرے لیے کیا مصیبت تھی۔ والد صاحب حامد خاں کی تباہی کے درپے تھے۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ کیا کروں۔ حامد خاں کا عذر یہ تھا کہ وہ مجھے برضا و رغبت لائے۔ مقدمے میں عمر کا سوال اٹھایا گیا۔ والد صاحب نے حتی الوسع پوری کوشش کی کہ میری عمر سولہ سے کم قرار دی جائے مگر سترہ سے اوپر قرار دی گئی اور اب سوال محض اس کا رہا کہ آیا مجھے زبردستی لے گئے یا برضا و رغبت گئی۔ والد صاحب کو حقیقت نہیں معلوم تھی۔ ورنہ وہ مقدمے میں اس قدر انہماک نہ لیتے۔ ان کو نہیں معلوم تھا کہ حامد خاں کے قبضے میں میرے ایسے خطوط ہیں جن سے بخوبی ثابت ہو سکتا ہے کہ میں راضی خوشی گئی اور ادھر میرا یہ حال کہ مقدمے کے خیال سے روح کانپتی تھی۔
یہی خیال آتا کہ الٰہی جب میرے خطوط پیش ہوں گے تب کیا ہوگا۔ والدین اور دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گی۔ اور پھر یہ کہ اس مقدمے بازی کا کیا نتیجہ ہوگا۔ والد صاحب مقدمے میں ایسی دلچسپی لیتے تھے کہ اندازہ ناممکن ہے۔ وکیلوں کو لا کر میرے بیان سنوائے گئے۔ قلمبند کیے گئے۔ اور پھر مجھ سے جرح کے سوال کر کر کے پختہ کیا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ مخالف وکیل جب میں یہ کہوں گی تب کیا سوال کرے گا اور مجھے کیا جواب دینا چاہیے۔ آخر وہ تاریخ آئی کہ میرے بیانات قلمبند ہوں۔ میں نے حامد خاں کو خط لکھنے کا کئی مرتبہ ارادہ کیا مگر ہمت نہ پڑی۔ حتی کہ تاریخ آگئی اور وقت آگیا۔ والد صاحب نے بڑے اعلیٰ پیمانے پر مجسٹریٹ اور وکلاء کے لیے پان شربت کا انتظام کیا اور مجھے بیانات کے لیے پختہ کر دیا۔
کوئی ایک بجے حاکم اور وکیل آگئے۔ مجسٹریٹ کی کرسی کے قریب ہی کر مچ کا پردہ رکھوا دیا گیا اور ایک کرسی ڈال دی گئی۔ میں اس پر آکر بیٹھی۔ آزمائش سخت تھی۔ حامد خاں اور ان کا وکیل آگے بڑھا، میں نے حامد خاں کو دیکھ کر نظر نیچی کرلی۔ مجسٹریٹ نے مجھے حلف دیا اور نام پوچھا۔ نام میں جب یہ سوال آیا کہ بنت لکھا جائے تو حامد خاں کے وکیل نے زوجیت کا سوال اٹھا دیا کہ مجھے زوجہ حامد خاں لکھا جائے۔ اس پر وکیلوں میں خوب بحث اور رد و قدح ہوئی۔ آخر کو زوجہ نہیں لکھا گیا۔ پھر حامد خاں کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ والد صاحب کو علیحدہ کیا جائے۔ یہ بھی سوال رد کر دیا گیا۔ میرے بیان ہوئے اور میں نے من و عن جیسے بیان بتائے گئے تھے، دے دیے۔ یعنی یہ کہ مجھے حامد خاں زبردستی اور مرضی کے خلاف پکڑ کر لے گئے۔ زبردستی اور دھمکیاں دے کر مجھ سے نکاح کے رجسٹر پر دستخط کرائے۔ میں نے ڈر کے سبب بوقت نکاح گواہوں اور قاضی سے رضامندی ظاہر کی وغیرہ وغیرہ۔
اس کے بعد حامد خاں کا وکیل جرح کے لیے آگے بڑھا۔ اس نے پوچھا اور میں نے جواب دیے کہ میں نے حامد خاں کو کبھی کوئی خط نہیں لکھے۔ میں کسی طرح نہیں لکھ سکتی تھی۔ میں نے کبھی نہیں چاہا کہ مجھے حامد خاں زبردستی لے جائیں۔ نہ میں نے کبھی ایسا لکھا۔ میں نے دروازہ کبھی نہیں کھولا۔ میں نے حامد خاں کو کبھی نہیں بلایا کہ مجھے لے جائیں۔ اس کے بعد ہی حامد خاں کے وکیل نے میرے خطوط کا پلندہ اپنی جیب سے نکالا۔ میں دیکھ کر لرز گئی۔ وکیل نے بڑھ کر میرے ہاتھ میں ایک رقعہ دیا۔ والد صاحب نے بڑھ کر دیکھنا چاہا تو حامد خاں کے وکیل نے اعتراض کر دیا اور والد صاحب روک دیے گئے۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے رقعہ لیا۔ یہ وہ خط تھا جس میں حامد خاں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ’’تمہارے خیالوں کا مرکز کون؟‘‘ اور میں نے جواب دیا تھا کہ ’’تم۔‘‘
حامد خاں کے وکیل نے کہا، ’’دیکھیے۔ جتنا سوال پوچھا جائے اتنا ہی جواب دیجیے گا۔ جب تک نام نہ پوچھا جائے۔ مت بتائیے گا اور یہ کاغذ کا پرزہ مجھے ہی واپس دیجیے گا۔۔۔‘‘ میرے لیے وقت سخت تھا اور حامد خاں کی اور میری نظریں چار ہوئیں تو میں نے نظر بچا کر ان کے آگے ہاتھ جوڑے۔ حامد خاں پر ایک بجلی سی گری۔ ایسی کہ وہ ہل گئے۔ اپنے وکیل کے ہاتھ سے خط لے لیے۔ بغیر عدالت کے پوچھے آہستہ سے میری طرف بڑھے اور رقعہ واپس مانگتے ہوئے بھوؤں کی جنبش سے رقعے کی طرف اشارہ کر کے آہستہ سے کہا، ’’کون؟‘‘ یعنی تمہارے خیالوں کا مرکز اب کون ہے؟ میں نے ایک نظر بھر کر ان کو دیکھا۔ گردن نیچی کرلی اور میرے لبوں کو جنبش ہوئی، ’’تم۔‘‘
حامد خاں نے خطوط اپنی جیب میں رکھے اور اپنے وکیل کو اشارہ کیا۔ وکیل نے عدالت سے کہا۔ ’’مقدمہ ختم کیجیے۔ ملزم اقبال جرم قلم بند کرانا چاہتا ہے۔‘‘ جس نے سنا۔ مارے حیرت کے کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ شروع سے اخیر تک انہوں نے میرے بیان کی تائید کردی اور اقبال جرم کر لیا کہ میں خلاف مرضی اس کو جبراً پکڑ کر لے گیا اور میں نے جرم کیا ہے۔ فوراً مقدمہ ختم ہوا اور کچھ لکھا پڑھی ہوکر دوسرے دن پر فیصلہ رکھا گیا۔ والد صاحب نےمجھے کرید کرید کر ان خطوط کے بارے میں پوچھا۔ میں نے لاعلمی ظاہر کی۔ اس خط کے بارے میں پوچھا کہ کیا لکھا تھا جو میرے ہاتھ میں دیا تو میں نے کہا کہ پڑھا نہ گیا۔ نہ معلوم کیا لکھا تھا اور کس کے ہاتھ کا تھا۔ حامد خاں کے غیرمعمولی رویے کے بارے میں پوچھا تو اس سے بھی میں نے لاعلمی ظاہر کی۔
والد صاحب حامد خاں کی سزا کا خیال کر کر کے خوش ہو رہے تھے۔ انہوں نے پوری زمیندارانہ آن کے ساتھ مقدمہ بازی کی تھی، جیل والوں سے یہ انتظام کیا کہ جیل لے جائیں تو ہماری کوٹھی کے سامنے ہو۔ میں عجیب سناٹے میں تھی۔ معلوم نہ تھا کیا ہوگا۔ حتی کہ والد صاحب خوشی خوشی گھر میں داخل ہوئے اور پکار کر انہوں نے والدہ صاحبہ سے کہا، ’’لو مبارک ہو، ڈھائی سال کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوئی ہے۔‘‘ میں دم بخود رہ گئی۔۔۔ کوئی آدھ گھنٹہ بعد میں نے دیکھا، اپنی آنکھوں سے، اپنے خیالوں کے اصلی مرکز کو، ہتھکڑیاں پڑی ہوئی سامنے سڑک پر سے گزرتے۔ والد صاحب اور ان کے دوست احباب یہ نظارہ دیکھ کر خوش ہوئے۔ حامد خاں نے سر اٹھا کر نہ دیکھا۔ میرا سکتہ کا سا عالم تھا۔
اس کے تیسرے روز کا ذکر ہے کہ حامد خاں کے وکیل نے دعویٰ کردیا کہ قرار دیا جائے کہ سلمیٰ میری جائز منکوحہ بیوی ہے اور جو نکاح کیا گیا وہ برضا و رغبت تھا۔ علاوہ اس کے انہوں نے سزا کے خلاف بھی اپیل کیا۔ اپیل میں جرمانہ بحال رہا مگر سزا چھ ماہ کی رہ گئی اور اب والد صاحب نے آگے اپیل کر دیا۔ دیوانی دعویٰ نے افضل بھائی کے ساتھ جو شادی کی تاریخ مقرر ہوئی تھی اس میں گڑبڑ ڈال دی۔ حامد خاں جیل کاٹ کر واپس آئے۔ والد صاحب سزا بڑھوانے میں ناکام رہے تھے اور اب دیوانی مقدمہ اس نوبت پر پہنچا کہ میرے بیان قلم بند ہوں۔ حامد خاں اپنے موٹر پر مع اپنے دوستوں کے آئے۔ کمرے میں منصف صاحب بیان لینے آئے۔ لیکن قبل اس کے کہ بیان قلم بند ہوں حامد خاں نے جھپٹ کر مجھے کرسی سے اٹھا لیا۔ ان کے تین دوست دن دہاڑے پستول نکال کر والد صاحب کو روک کر کھڑے ہوگئے۔ میں چیختی کی چیختی رہ گئی مگر زور قطعی نہ لگایا کہ کچھ تو تلافی کر دوں۔
موٹر میں ڈال کر مجھے لے اڑے۔ گھر پر پہنچے ہی تھے کہ والد صاحب پولیس کا دستہ مع مجسٹریٹ کے لے کر آگئے۔ میں رو رہی تھی، مجسٹریٹ لینے آئے تو حامد خاں نے والد صاحب کو علیحدہ کروا دیا۔ میں نے جواب دیا کہ ’’خود آئی ہوں۔ منکوحہ بیوی ہوں۔ پہلے بھی خود ہی گئی تھی۔ نکاح راضی خوشی ہوا تھا۔ میں اپنے شوہر کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔ باپ کے پاس نہیں رہنا چاہتی۔ اگر میرے شوہر کے پاس پستول نہ ہوتے تو میں حبس بیجا سے آزاد نہیں ہو سکتی تھی۔ مجھے بچانے اور میری حفاظت کے لیے ایسا کیا گیا۔ اس سے پہلے مقدمے میں جو بیان میں نے دیے وہ غلط اور جھوٹے تھے اور دباؤ سے دیے تھے۔۔۔‘‘ والد صاحب باہر ہی تھے اور مجسٹریٹ نے والد صاحب سے جو یہ کہا تو وہ سناٹے میں آگئے۔
جس طرح پہلے حامد خاں کو شکست خوردہ ہتھکڑی پہنے جاتے دیکھا تھا تو رنج کے سبب سکتہ کا عالم سا ہو گیا تھا۔ اسی طرح میں نے اپنے عزیز اور پیارے باپ کو دیکھا۔ حامد خاں سے زیادہ قابل رحم حالت تھی۔ میں مقدمے سے نڈھال ہو رہی تھی۔ حامد خاں کے دوست احباب فقرہ چست کر رہے تھے۔ تیسرے دن معلوم ہوا کہ دیوانی مقدمہ جو حامد خاں نے میرے اوپر چلایا تھا، وہ حامد خاں کے وکیل کی عدم حاضری کے سبب ہار گیا۔ میرا اور والد صاحب کا وکیل موجود تھا۔ چنانچہ میں جیت گئی اور حامد خاں کا مقدمہ مع خرچہ خارج ہو گیا۔
یہ تو سب کچھ ہوگیا مگر میں سخت پریشان تھی۔ اس سے زیادہ اور کیا شرم کی بات ہو سکتی تھی کہ دن دہاڑے ایک شخص ایک لڑکی کو حاکم کی ناک کے تلے سے پکڑ لے جائے اور وہ لڑکی خود باپ کے خلاف بیان دے دے۔ میں نے پریشان ہو کر حامد خاں سے کہا، ’’خاں صاحب، میں اس طرح زندہ نہیں رہ سکتی۔‘‘ حامد خاں نے کہا؛ ’’اول نمبر کی مکار ہو تم۔‘‘ میں نے کہا، ’’کیوں؟‘‘ وہ بولے، ’’تم نے مجھے جیل کرائی اور کتنی مشکلوں میں ڈالا۔‘‘ میں نے کہا، ’’اور تم سمجھے کہ چاہنے والی بیوی یونہی مل جاتی ہوگی۔ کچھ بھی ہو۔ سن لو کان کھول کر۔ تم مجھے زبردستی پکڑ لائے۔ میں تو گھر جاتی ہوں۔ پھر بڑے شرم کی بات ہے کہ میں باپ کے خلاف مجسٹریٹ کے سامنے بیان دوں۔‘‘
حامد خاں نے کہا، ’’پھر کیوں دیے۔‘‘ میں نے کہا، ’’کچھ راضی خوشی دیے؟‘‘
’’پھر؟‘‘
میں نے کہا، ’’ڈر کے مارے دیے۔‘‘
کہنے لگے، ’’شاید کہ تمہاری شامت پھر آئے۔‘‘ میں نے کہا، ’’نہ شامت نہ آمت۔ بندی تو جاتی ہے۔ نکٹی ہو کر جینے سے رہی۔‘‘ وہ بولے، ’’اور جو پھر بات بڑھی۔‘‘ میں نے کہا، ’’میں نہیں جانتی۔ ایسا ہی ہے تو پھر تم مجھے پکڑ لانا۔ مگر میں نکٹی ہو کر نہیں جی سکتی۔‘‘ حامد خاں بولے، ’’اب جو تم اپنی ناک جوڑنے کی فکر میں پڑیں تو اچھی طرح سمجھ لو۔ میں دیوانہ ہو جاؤں گا۔‘‘ میں نے کہہ دیا کہ دیوانگی کا تو سوال فضول ہے۔ رہ گئی میری ناک تو وہ بے جڑے نہیں رہ سکتی۔ بدقسمتی سے حامد مذاق ہی سمجھا کیے او رمیں جیسا کہ کہہ چکی تھی چپکے سےدوسرے روز شام کو ایک تانگہ منگا کر سیدھی گھر پہنچی۔ ایک خط لکھ کر رکھتی گئی کہ جھگڑا نہ کھڑا کرنا بلکہ اُدھر کا رخ نہ کرنا۔
گھر پہنچی تو جھٹپٹا وقت تھا۔ تانگے سے اتر کر سیدھی اپنے کمرہ میں چلی گئی۔ گھر میں کھلبلی پڑ گئی۔ والدہ صاحبہ آئیں تو ان سے گلے مل کر میں خوب روئی۔ ابا جان کی شکایت کی کہ مجھے بے بسی میں چھوڑ آئے۔ مجھے مار ڈالنے کی دھمکی دی گئی اور ڈر کے مارے مجھے بیان دینے پڑے۔ غضب ہے خدا کا مجھے کوئی بچانے والا نہیں۔ میں نے وہ فیل مچائے کہ ہرکس و ناکس کو مجھ سے ہمدردی ہوگئی۔ والد صاحب کہیں باہر تھے، انہیں بلانے دوڑایا اور رشتے کنبے میں جلد تر خبر کی گئی۔ والد صاحب آئے اور جب انہوں نے سنا کہ میں چپکے سے بھاگ آئی اور یہ کہ مجھ سے زبردستی بیان لیے گئے تھے تو باغ باغ ہوگئے۔ مجھے سینہ سے لگا لیا اور مارے محبت کے بیچارے رونے لگے اور پھر جو خیال آیا ہے تو فوراً عدالت کی سوجھی۔ تو چل اور میں چل۔
پولیس اور مجسٹریٹی میں موٹر دوڑنے لگے۔ آناً فاناً میں استغاثہ تیار ہوگیا۔ وکیل آگئے۔ پولیس میں رپورٹ لکھا دی گئی۔ دوسرے ہی دن مجسٹریٹ کے یہاں استغاثہ پیش ہوگیا۔ مجسٹریٹ نے گھر پر آکر میرے بیان لیے۔ میں نے بیان دیے کہ مجھے جبراً پکڑ لے گئے۔ زبردستی بیان دلوائے۔ وہ بیان جھوٹے تھے اور دباؤ سے دیے تھے۔ دیوانی مقدمے کے فیصلے کی نقل پیش کی گئی اور فوراً ثابت کردیا گیا کہ میں حامد خاں کی بیوی نہیں ہوں۔ مجھ سے جو اس بارے میں پوچھا تو میں نے کہہ دیا کہ ’’مجھے پتہ نہیں۔‘‘ مجسٹریٹ بیان لے کر چلا گیا۔ والد صاحب بے حد خوش تھے مگردوسرے روز تمام خوشیاں خاک میں مل گئیں۔ مجسٹریٹ نے میرا استغاثہ خارج کر دیا اور تمام واقعات پر سرسری طور پر تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ میں یہ رائے ظاہر کی کہ میں جھوٹی ہوں اور ساری شرارت میری ہی ہے۔ کبھی کچھ بیان دیتی ہوں اور کبھی کچھ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا ’’تو یہ لڑکی اپنے ہر گزشتہ بیان کی تکذیب کرتی رہے گی۔ لہٰذا یہ مقدمہ خارج کیا جاتا ہے۔‘‘ والد صاحب آگ بگولا ہوگئے اور طے ہوا کہ اس فیصلہ کے خلاف اپیل کریں گے۔
یہ تو سب کچھ ہوا، لیکن اب ٹھوس حقیقت بھی سامنے تھی۔ سب رشتے دار اور کنبے دار جمع ہوئے اور معاملات پر غور کیا، تو بوڑھیاں سر ہلانے لگیں۔ ذرا دیر تو چپ رہیں پھر دو ایک پھٹ پڑیں۔ بولیں، ’’نابابا۔ بیوی تو یہ حامد کی ہے اور کہیں اس کی دوسری جگہ شادی ہو تو ہم شریک نہیں۔‘‘ والد صاحب نے جو سنا تو پھر وہی عدالت اور کچہری۔ کسی طرح قابو میں نہ آئے۔ سب رشتے داروں کنبے داروں نے صلاح مشورہ کیا کہ حامد معافی مانگیں۔ مگر والد صاحب رضامند نہ ہوئے۔
جب کسی طرح راضی نہ ہوئے تو لوگوں نے کیا کیا کہ حامد خاں کے ہاتھ باندھ ابا جان کے سامنے لا کھڑا کیا اور ان کے پیروں پر گرا دیا۔ ایسا کہ ابا جان کو چار و ناچار حامد خاں کو گلے لگانا پڑا۔ کرتے بھی کیا اور اسی ہفتے باضابطہ شادی اور رخصت بھی کر دی۔ گویا عید پیچھے ٹر۔ نکاح وہی قائم رکھا گیا۔ اور اس طرح جاکر یہ جھگڑا بخیر و خوبی ختم ہو گیا اور اللہ نے میری آبرو اور شرم رکھ لی۔ ورنہ آپ خود غور کریں کہ ’’بڑے شرم کی بات‘‘ تھی۔ اس چپقلش میں افضل بھائی ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے گئے۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |