بگڑے وہ لاکھ طرح مگر گل نہ ہو سکا

بگڑے وہ لاکھ طرح مگر گل نہ ہو سکا
by نسیم دہلوی

بگڑے وہ لاکھ طرح مگر گل نہ ہو سکا
میں اپنے صدقے یاں بھی تامل نہ ہو سکا

گو ہچکیاں رہیں مجھے مینا کی یاد میں
لیکن ادا ترانۂ قلقل نہ ہو سکا

ممکن نہیں مرا دل پژمردہ شاد ہو
کمھلا گیا جو غنچہ وہ پھر گل نہ ہو سکا

اللہ رے جوش آپ کی بخشش کے بعد بھی
اشکوں سے میرے ترک تسلسل نہ ہو سکا

بگڑا ہوا مزاج سنبھلتا نہیں نسیمؔ
طعنوں کا ان کے مجھ سے تحمل نہ ہو سکا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse