بگڑ کر عدو سے دکھاتے ہیں آپ
بگڑ کر عدو سے دکھاتے ہیں آپ
بناوٹ کی باتیں بناتے ہیں آپ
بڑھانے کو قصے شب وصل میں
فسانے عدو کے سناتے ہیں آپ
کسی کو تجلی کسی کو جواب
عجب کچھ لگاتے بجھاتے ہیں آپ
بگڑنے کے اسباب لازم نہیں
نئی بات دل سے بناتے ہیں آپ
نہ آنا تھا گر آئے کیوں خواب میں
مگر سوتے فتنے جگاتے ہیں آپ
بندھے کیا کسی سے امید وصال
نظر سے نظر کب ملاتے ہیں آپ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |