بھاتی ہیں دل کو پیارے ناز و ادائیں تیری
بھاتی ہیں دل کو پیارے ناز و ادائیں تیری
دل میں یہ آرزو ہے لے لوں بلائیں تیری
اک پل پلک اٹھا کر دیکھو بہ نظر رحمت
اسرار گنج مخفی آنکھیں لبھائیں تیری
زلف سیہ کے بل میں عالم تو مبتلا ہے
عاشق بھلا یہ کس کو باتیں سنائیں تیری
دیدار حق نما ہے پیارے جمال تیرا
مستانہ جلوہ گریاں کیا کیا بتائیں تیری
روز ازل سے ہم ہیں حسن و لقا کے شائق
شرم و حیا کی باتیں کیا کیا سنائیں تیری
بس میں نہیں ہوں تو ہے پھر کیا حجاب باقی
کب تک بھلا یہ رمزیں دل میں سمائیں تیری
یہ عشق سوز مستی ہے میراں شاہؔ کو حاصل
کیا کیا یہ حالتیں ہیں مجھ کو سجھائیں تیری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |