بھاشا، زبان اور مسلمان

بھاشا، زبان اور مسلمان
by شبلی نعمانی
319438بھاشا، زبان اور مسلمانشبلی نعمانی

ناظرین کو یاد ہوگا کہ ایک سربرآوردہ ہندو ایڈیٹر نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں دعویٰ کیا تھا کہ ’’مسلمانوں نے تعصب مذہبی کی وجہ سے ہندی علم وادب پر کبھی توجہ نہیں کی اور اگر اتفاقیہ کسی نے کچھ کی تو اس کو مسلمانوں نے کافر کہہ کے پکارا۔‘‘ اس کا جواب الندوہ کے پرچہ میں ’’مسلمانوں کی بے تعصبی‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا تھا، جس میں مسلمانوں کی ان فیاضیوں کو بہ تفصیل دکھا گیا تھا، جو سنسکرت اور بھاشا کی تصنیفات کی حفاظت اور ترجمےاور اشاعت کے متعلق ان سے ظہور میں آئیں۔ یہ مضمون اسی کا دوسرا حصہ ہے، اس میں یہ دکھایا ہے کہ ترجمے اور اشاعت کے علاوہ مسلمانوں نے خود بھاشا زبان میں کیا کیا تصنیفات کیں اور بھاشا کی شاعری میں کس درجے کا کمال پیدا کیا۔

یہ امر بھی اس موقع پر لحاظ کے قابل ہے کہ سنسکرت زبان ایک مدت سے متروک ہے، یعنی ایک زمانہ دراز سے خود ہندو بھی اس زبان میں تصنیف و تالیف نہیں کرتے اور اسلام کے زمانے سے تو غالباً کوئی کتاب اس زبان میں نہیں لکھی گئی۔ ہندوؤں کی تصنیفات یا شاعری جو کچھ ہے، بھاکھا زبان میں ہے، اس لئے مسلمانوں نے بھی جو کچھ لکھا اسی بھاشا زبان میں لکھا۔ عام طور پر مشہور ہے کہ سب سے پہلے جس شخص نے بھاکھا زبان میں شعر و شاعری کی وہ امیر خسرو ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے کا پتا آگے تک چلتا ہے۔ مسعود سعد سلمان جو سلطنت غزنویہ کا مشہور شاعر گزرا ہے، اور جو امیر خسرو سے تقریبا ًدو سو برس پہلے تھا، اس کی نسبت تمام تذکرے متفق اللفظ ہیں کہ ہندی زبان میں بھی اس نے ایک دیوان لکھا تھا، تذکرہ مجمع الفصحا میں لکھا ہے، ’’الحاصل دی راسہ دیوان بود تازی، ہندی و پارسی۔‘‘ اس واقعے سے صرف والہ داغستانی نے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے ملک کی زبان میں اس قدر کمال پیدا نہیں کر سکتا کہ اس میں شاعری کر سکے۔ لیکن مولوی غلام علی آزاد نے اس شبہے کو اس طرح رفع کر دیا کہ مسعود سعد سلمان گوخاندان کے لحاظ سے ایرانی تھا، لیکن پیدا لاہور میں ہوا تھا، اس لئے ایک ہندوستان زا کا ہندی میں اس درجے کا کمال پیدا کرنا کچھ بعید نہیں۔ حضرت امیر خسرو نے سنسکرت اور بھاکھا میں جو کمال پیدا کیا وہ محتاج اظہار نہیں، مثنوی نہ سپہر میں انہوں نے خود اپنی سنسکرت دانی کا ذکر کیا ہے، افسوس ہے کہ ان کے بھاکھا کے خالص اشعار آج ناپید ہیں، عام زبانوں پرصرف وہ اشعار ہیں، جن میں انہوں نے فارسی اور بھاکھا کو پیوند دیا ہے، مثلاً،

چوں شمع سوزاں، چو ذرہ حیراں زمہر ِ آن مہ بگشتم آخر نہ نیند نینان نہ انگ چیناں نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں (آنکھ، بدن، آرام، خط)

اس طرز کے ان کے اشعار عام طور پر مشہور ہیں اس لئےہم ان کو قلم انداز کرتے ہیں۔ امیر خسرو کے بعد شیر شاہی عہد میں ملک محمد جائسی پیدا ہوئے۔ وہ بھاکھا زبان کے ایسے بڑے زبردست شاعر تھے کہ خود ہندوؤں میں آج تک ان کا ہمسر نہیں پیدا ہوا۔ پدماوت ان کی مثنوی آج موجود ہے اور گھرگھر پھیلی ہوئی ہے، ہندوؤں میں سب سے بڑا شاعرآخر زمانے کا کالیداس گزرا ہے، جس نے رامائن کا بھاکھا میں ترجمہ کیا ہے۔ نکتہ شناسوں کا بیان ہے، کہ قدرت زبان کے لحاظ سے پدماوت کسی طرح رامائن سے کم نہیں اور اس قدر تو ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ پدماوت کے صفحے کے پڑھتے چلے جاؤ، عربی فارسی کے الفاظ مطلق نہیں آتے اور یوں شاذ و نادر تو رامائن بھی ایسے الفاظ سے خالی نہیں، ملاحظہ ہو۔ رامائن کے بعض اشعار۔

رام انیک گریب نواجے لوگ بر بر برو براجے غریب نواز
گنی، گریب، گرام، نرناگر پنڈت موٹے ملیں اوجاگر غنی غریب

ملک محمد جائسی نے پدماوت کے سوا بھاکھا میں اور بھی دو مثنویاں لکھیں، جو ان کے خاندان میں اب بھی موجود ہیں، لیکن افسوس کہ ان کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔

اکبر کے زمانے میں ہندی زبان کو اور بھی قبول عام حاصل ہوا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ امرا اور شہزادے تک ہندی زبان میں شاعری کرتے تھے۔ شہزادہ دانیال (پسر اکبرشاہ) کے ضمنی تذکرے میں جہانگیر اپنی تزک میں لکھتا ہے، ’’بہ نغمہ ہندی مائل بود، گاہے بہ زبان اہل ہندو باصطلاح ایشان شعرے می گفت، بد نبودے۔‘‘

عبدالرحیم خان خاناں جو دربار اکبری کا گل سر سبد تھا، ہندی شاعری میں کمال کا درجہ رکھتا تھا، اسی کتاب میں خان خاناں کی وفات کے ذکر میں لکھا ہے، ’’خان خاناں در قابلیت و استعداد یکتائے روزگار بود و زبان عربی و ترکی و فارسی و ہندی می دانست و از اقسام دانش عقلی و نقلی حتی علوم ہندی بہرہ وافی داشت و بزبان فارسی و ہندی شعر نکو گفتے۔‘‘ جہانگیر کے زمانے میں غواصی نامی ایک شاعر تھا، اس نے طوطی نامہ کو جو نثر میں تھا، اس طرح نظم کیا کہ ایک مصرع فارسی اور ایک ہندی میں تھا۔ اس سے اس کی قدرت زبان کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ میر حسن صاحب اپنے تذکرہ شعرا میں لکھتے ہیں،

’’غواصی تخلص دروقت جہانگیر بادشاہ بود، طوطی نامہ بخشی رانظم نمودہ است بزبان قدیم نصفے فارسی و نصفے ہندی بطور بکٹ کہانی۔ سرسری دیدہ بودم شعرآن نظم بہ یاد نیست۔‘‘ اسی زمانے میں ملا نوری ایک بزرگ تھے، قصبہ اعظم پورکے قاضی زادوں میں تھے اور فیضی سے نہایت اتحاد رکھتے تھے، وہ اگرچہ فارسی کہتے تھے، لیکن کبھی کبھی ہندی میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ ریختہ یعنی اردو زبان کی ترکیبیں بھی ان کے کلام میں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ میر حسن صاحب نے اپنے تذکرے میں ان کا ایک شعرنقل کیا ہے،

ہر کس کہ خیانت کند البتہ نبرسد بیچارہ نوری نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے اکبری اور جہانگیری دور میں سب سے زیادہ جس نے اس فن میں نام پیدا کیا وہ شیخ شاہ محمد بن شیخ معروف فربلی تھے۔ یہ بلگرام کے رہنے والے تھے۔ اور حصار کی حکومت پر ممتاز تھے، ایک دفعہ سفر میں ایک ہندو لڑکی کی حاضر جوابی ان کو بہت پسند آئی، اس کو ساتھ لائے اور تربیت کی، چنانچہ ان کے اکثر دوہے اور کبت اسی کے ساتھ سوال و جواب میں ہیں۔ ایک دفعہ سفر سے آئے، اس نے ان کو مدت کے بعد دیکھا تو جوش محبت سے اس کی آنکھوں سے آنسونکل آئے۔ انہوں نے کہا،

کم ورگ دھری سنار مم آیو بھار یو نہیں

(کیوں تیری آنکھ آبدیدہ ہوئی اے نازنین، کیا میرا آنا پسند نہیں ہوا؟) اس نے برجستہ کہا،

لینھن نین پکھار لمن ہتی تو کو درس بن (آنکھ صاف کرنا، گرد آلود تیرے دیدار کے بغیر)

یعنی چونکہ میری آنکھیں تمہاری جدائی میں گرد آلود ہو رہی تھیں، اس لئے میں نے ان کو آنسوؤں سے دھو لیا۔

شیخ محمد کے اشعار نہایت کثرت سے سرو آزاد کے دوسرے حصے میں نقل کئے ہیں۔ تیموری سلاطین بھاشا زبان کی شاعری کی اسی طرح قدردانی کرتے تھے، جس وہ اپنی شاہی زبان (فارسی) کے قدر دان تھے۔ اور یہ اس بات کا بڑا سبب تھا کہ ہندی شاعری بھی روز بروز ترقی کرتی جاتی تھی۔ راجہ سورج سنگھ نے جب ایک ہندو شاعر کو جہانگیر کے دربار میں پیش کیا اوراس نے ایک اچھوتے مضمون کی نظم پڑھی تو جہانگیر نے ایک ہاتھی انعام میں دیا، چنانچہ خود تزک میں لکھتا ہے، ’’بایں تازگی مضمونے از شعرائے ہند کم بگوش رسیدہ بہ جلد دے ایں مدح فیلے بہ او مرحمت کردم۔‘‘ جہانگیر کے حکم سے ان اشعار کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا گیا۔

گر پسر داشتے جہان افروز شب نہ گشتے ہمیشہ بودے روز زان کہ چوں او نہفت افسرزر بہ نمودے کلاہ گوشہ پسر شکرکز بعد او چنان پدرے جانشین گشت این چنین پسرے کہ زشنقار گشتن آن شاہ کس بہ ماتم نہ کرد جامہ سیاہ ان اشعار کا حاصل یہ ہے کہ اگر آفتاب کے کوئی بیٹا ہوتا تو کبھی رات نہ ہوتی کیوں کہ جب آفتاب چھپ جاتا ہے تو اس کا بیٹا، اس کے بجائے عالم افروزی کرتا، خدا کا شکر ہے کہ آپ کے والد (اکبرشاہ) کو خدا نے ایسا بیٹا دیا کہ لوگوں نے ان کے انتقال کا غم نہ کیا۔ ہندی تصنیفات کے ساتھ مسلمانوں کی توجہ کی یہ نوبت پہنچی کہ لوگ ہندی کی مشہور کتابوں کو زبانی یاد کرتے تھے۔ امین رازی تذکرہ ہفت اقلیم میں میر ہاشم محترم کے حال میں لکھتے ہیں، ’’امروز درہندست، تمام کتاب مہابھارت را کہ مستجمع اسامی غریبہ و حکایات عجیب است در ذکر دارد۔‘‘ اس مسئلے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عالمگیر کو نہایت متعصب کہا جاتا ہے، اورعام خیال ہے کہ وہ ہندوؤں کے علوم اور زبان سے نہایت نفرت رکھتا تھا، لیکن مسلمانوں نے بھاشا زبان پر جس قدر اس کے زمانے میں توجہ کی، پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ ضمیر ایران کا ایک مشہور شاعر تھا، وہ عالمگیر کے زمانے میں ایران سے آیا اور شاہی منصب داروں میں مقرر ہوا۔ اس نے بھاشا زبان میں انتہا درجے کا کمال پیدا کیا۔ اگر چہ بھاشا و سنسکرت کے الفاظ کا وہ صحیح تلفظ نہیں کر سکتا تھا، تاہم اس زبان میں نہایت برجستہ اشعار کہتا تھا۔ ہندی میں اس کا تخلص پتھی تھا۔ یارجا تک جو موسیقی میں ہندی زبان کی مشہور کتاب ہے، اس کا ترجمہ اسی نے فارسی زبان میں کیا۔ مولوی غلام علی آزاد بلگرامی یدبیضا میں اس کے حالات کے ذیل میں لکھتے ہیں، ’’درعہد عالمگیر بادشاہ از ولایت ایران بہ ہند آمدہ و در مسلک منصب داران شاہی انتظام داشت و باوجود آں کہ بہ ہند آمدہ زبان ایں ولایت آموخت اما بواسطہ حدت ذہن در نظم ہندی طبع او آن قدر دخیل شد کہ از جملہ استادان فن برآمد زبانش بہ تلفظ ایں زبان خوب نمی گردید، اما نظم بسیار پختہ واقع می شد در ہندی پتھی تخلص می کرد۔ ترجمہ یا رجاتک در فن رقص و نغمات ہندی ازوست۔‘‘ عالمگیر ہی کے متوسلین میں ایک شاعر دانا تخلص تھا، اس کی نسبت مولوی غلام علی آزاد بلگرامی ید بیضا میں لکھتے ہیں، ’’نظم ہندی بسیار خوب گفتہ۔‘‘ بھاشا کی زبان دانی اور شاعری کا ذوق اس زمانے میں اس قدرعام ہوا کہ بڑے بڑے علما اور حضرات صوفیہ اس میں کمال پیدا کرتے تھے۔ شیخ غلام مصطفے متخلص بہ انسان بہت بڑے پایے کے شخص گزرےہیں۔ وہ قوم کے کنبو اور مرادآباد کے رہنے والے تھے۔ معقولات کی تحصیل حضرت ملا قطب الدین شہید سہالوی (جد مولانا بحر العلوم) کی خدمت میں کی، حدیث کا فن محدث دہلوی کے خاندان سے حاصل کیا، تصوف میں شیخ جان محمد شاہجہاں آبادی کے مرید تھے۔ طب، نجوم، خوش نویسی، فن جنگ، ان تمام چیزوں میں کمال رکھتے تھے، عالمگیر کے زمانے میں منصب داری کے عہدے پر مامور ہو کر دکن گئے لیکن چند روز کے بعد استعفا دے کر چلے آئے۔ ۱۱۴۲ میں بہ مقام ایچلپور وفات پائی۔ ہندی زبان اور بھاشا کی شاعری میں ان کا جو درجہ تھا اس کا اندازہ مولوی غلام علی آزاد کی عبارت ذیل سے ہو سکتا ہے۔ ’’علم ہندی بحیثیتے کہ اکثر براہمہ حل غوامض ازخدمت شیخ می کردند و شعر ہندی نیز خوب می گفت، صنادید شعرائے ہندی برہمن درحضور او سر فرود می آوردند و اصلاح کبت و دوہا می گرفتند۔‘‘

سرو آزاد عبدالجلیل بلگرامی

(مولوی غلام علی آزاد کے نانا) جو عالمگیر کے درباری تھے، ہندی زبان کے ممتاز شاعر تھے۔ فارسی قصیدوں میں بھی کہیں کہیں بھاشا بول جاتے ہیں، چنانچہ ایک قصیدے میں لکھتے ہیں،

اسیس دیکے، کہے ہندوی میں یوں سمت رہے جگت میں اچل باس یہ وزیرسدا یہ ذوق اس قدرترقی کرتا گیا کہ محمد شاہ کے زمانے میں جب راجہ جے سنگھ والی جے پور نے بیس لاکھ کے صرف سے رصد خانہ قائم کیا اور فن ریاضی کے ساتھ نہایت اہتمام کیا تو علمائے اسلام نے اس کے حکم سے شرح چغمنی اور ہیئت کی اور کتابوں کا ترجمہ بھاشا زبان میں کیا۔ چانچہ آزاد، سبحۃ المرجان میں لکھتے ہیں، و قد نقل العلما الاہاند بامرجی سنگھ شرح الچغنی و غیرہ من کتب للھیئۃ والہندسۃ من العربیہ الی الہندیۃ۔

(سبحۃ المرجان ص ۱۳۴)

(ہندوستان کے علما نے جے سنگھ کے حکم سے شرح چغمنی وغیرہ کتابوں کا جوعلم ہیئت اور ہندسہ میں تھی، عربی زبان سے ہندی زبان میں ترجمہ کیا۔) شرح چغمنی اس درجے کی مشکل کتاب ہے کہ اردو میں اس کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا، اس سے قیاس کرنا چاہئے کہ جوعلما بھاشا زبان میں اس کا ترجمہ کرسکے، ان کی بھاشا دانی کا کیا رتبہ ہوگا۔ اسی زمانے میں سید نظام الدین بلگرامی نے سنسکرت اور بھاشا کے علم وادب میں نہایت شہریت حاصل کی، سنسکرت کے حاصل کرنے کے لئے بنارس کا سفر کیا اور وہاں رہ کر اس علم کی تکمیل کی، ہندی موسیقی میں اس درجے کا کمال پیدا کیا کہ لوگ ان کو نایک کہتے تھے۔ چنانچہ اس فن کے متعلق بھاشا میں دو کتابیں تصنیف کیں، ناؤ چندر کا اور مدھنایک سنگار، بھاشا میں مدھنایک تخلص کرتے تھے۔ ۱۰۰۹ میں وفات پائی، کلام کا نمونہ یہ ہے،

جو چترانن چت چڈھے، نہ بڈھے، بدھ بیدن، گرنتھ نہ گائے (فرشتہ، دل، ترکیب و صورت، عقلا کتب آسمانی قدیم کتابیں)

بھارتھی، بھوری کری، بھرین، جپ، جوگن، جوگ اتھیہ گنائے (گویائی، سجہ گردانی، ریاضت، مرتاض)

جو مکھ جوت جگی، نہ تھگی، مدھنایک گھونگھٹ چنچل تائے (چہرہ، روشنی، نام شاعر، شوخی)

جھنین، دوکول، چھے جھلکی، ابچھ، براجت، اچھ رجھائے (باریک، دوپٹا، زیب دینا، بے مثل، فریفتہ کرنا)

مطلب یہ ہے کہ تیری آنکھیں نقاب کے اندر جس قدر خوش نما ہیں، اس کی خوبی فرشتوں کے خیال میں بھی نہیں آسکتی اور نہ آسمان کی کتابوں میں ان کی توصیف پائی جاتی ہے۔ قوت نطق خود محو حیرت ہے اور زاہد مرتاض سجہ گردانی سے بھی زیادہ اس کا مداح ہے۔ نقاب تک ان آنکھوں کی خوبی کو چھپا نہیں سکتی بلکہ باریک دوپٹا اس کی خوبی اور بھی دوبالا کر دیتا ہے۔ ان کا بہت سا کلام سرو آزاد میں نقل کیا ہے۔ لیکن چونکہ ناظرین کے لئے وہ نامانوس صدا ہوگی، اس لئے ہم اس کو قلم انداز کرتے ہیں۔ سید رحمت اللہ پسر سید خیر الدین بلگرامی بھاشا زبان کے مشہور استاد تھے۔ سلطنت کی طرف سے دوصدی منصب اور جاگیر مقرر تھی۔ اس زمانے میں بھاشا کا مشہور چنتامن ایک ہندو تھا، اس کا ایک شاگرد رحمت اللہ کا شہرہ سن کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور چنتامن کا دوہا ان کے سامنے پڑھا۔ ہیوھرت ارکرت ات چنتامن چت چین وامرگ نینے کی لکھی واہی کی سی نین سید رحمت اللہ نے اس دوہے میں غلطی نکالی اور چنتامن نے سنا تو غلطی تسلیم کرکے اس کی اصلاح کردی۔ چنتامن نے سید رحمت اللہ کی مدح میں ایک دوہا بھی لکھا جس کا مطلع یہ ہے،

گرب، گھ سنگ، جیون، سبل، کل گاج من، پربل گج باج، دل، ساج، دھاپو

(غرور، شیر، بطور قوی اظہار دلیری، زبردست ہاتھی، گھوڑا، فوج، آراستہ، حملہ کیا) بجت اک جمک گھن گھمک دندبھن کی ترنگ، کھر، دھمک، بھوتل ہلایو (ایک طرح پر، گردون شگاف، نقارہ، گھوڑے کاسم، زمین)

سید رحمت اللہ نے ۱۳ربیع الاول ۱۱۱۸میں وفات پائی۔ ان کے بہت سے دوہے سرو آزاد میں نقل کئے ہیں، ہم صرف ایک پراکتفا کرتے ہیں۔

کراچائے جھائے تیر دھاری بھج یہ بھائے (ہاتھ بلند کرنا، انگڑائی، بازو، خوش نما معلوم ہوئے)

منوچیلا دوی چمک ہوئے گری بھوم پر آئے ( گویا ِبجلی، زمین)

یعنی محبوب نے جمائی لیتے ہوئے جب دونوں ہاتھ اٹھا کر نیچے کرلیے تو یہ معلوم ہوا کہ گویا دو بجلیاں چمک کر زمین پر گر پڑیں۔ سیدغلام نبی پسر سید محمد باقر، سید عبد الجلیل بلگرامی کے بھانجے تھے، ۲ محرم ۱۱۱۱ھ میں پیدا ہوئے۔ سیدعبد الجلیل اس زمانے میں عالمگیر کے ساتھ دکن کی مہم پر تھے۔ بھانجے کے پیدا ہونے کی خبر سنی تو سال تاریخ کی فکر ہوئی، اسی حالت میں سوگئے اور خواب میں یہ مادہ ہاتھ آیا۔ نور چشم باقر عبد الحمیدم۔

تفاول کے طور پر پیشین گوئی کی کہ یہ لڑکا شاعر ہوگا۔ خدا کی قدرت پیشین گوئی صحیح اتری، اگرچہ عربی و فارسی میں مہارت رکھتے تھے، لیکن بھاشا کی شاعری میں نہایت کمال پیدا کیا۔ ۱۱۶۳ میں نواب وزیر اور افاغنہ کی لڑائی میں نواب کے ہمرکاب تھے، اورعین معرکہ جنگ میں مارے گئے۔ مولوی غلام علی آزاد سے نہایت درجے کا اتحاد تھا۔ چنانچہ آزاد نے تاریخ کہی، رقم کرد ہے ہے غلام نبی۔ بھاشا زبان میں ایک دیوان لکھا جس میں ۱۷۷ دوہے ہیں، اس کا نام انگ درپن رکھا، بھاشا میں ان کا تخلص درس لین ہے، درس کے معنی بھاشا میں دیدار کے ہیں اور لین کے معنی محو کے ہیں اور درسلین کا لفظی ترجمہ محو دیدار ہے، ان کے کلام کا نمونہ یہ ہے۔ توحید تیری منورتھ کوہوت ہے سین لوک توں ہی ہوئی اکاش کمرت نکہت اودت ہے (مطلب، اشارہ، دینا، آسمان، ستارہ، روشنی)

توں ہی چاروتتو، سیل تنرپس،پنچھی، ہوت تون ہی میگھ پوجی کوت اور اکوت ہے (اربعہ، عناصر، پہاڑ، درخت، چرندپرند، بادل، دیتا ہے، حساب بے حساب)

توں ہی بن ناری بھرتا کی رسلیں موت توں ہی ہوئی کی سترلب این تن لوت ہے (عورت، شوہر، خو، دشمن)

جاگ پڑی جھونٹوں جیون سیں لوگ ہوت تیونہیں اتمابچاری لوک جاگت کو موت ہے (بیداری، خواب، روح) یعنی تیرے ہی اشارے سے دنیا پیدا ہوتی ہے، تو ہی آسمان بن کر ستاروں کو روشن کرتا ہے، توہی اربعہ عناصر اور پہاڑ، درخت، چرند اور پرند بن جاتا ہے، تو ہی بادل بن کر بے حساب بارش کرتا ہے، تو ہی عورت کے قالب میں آکر مرد کا راحت رساں ہے، تو ہی بالآخر موت کی صورت میں جان کا دشمن ہے، تو جس طرح کہ جاگنے کے بعد خواب بالکل وہم معلوم ہوتا ہے اسی طرح خدا شناسوں کے نزدیک یہ دنیا تمام تر خواب ہے۔ سید برکت اللہ بہت بڑے فقیہ تھے۔ بھاشا میں شعر کہتے تھے۔ اور پیمی تخلص کرتے تھے۔ بھاشا میں جو ان کی نظموں کا مجموعہ ہے، اس کا نام خود پیہم پرس رکھا تھا، سرو آزاد میں ان کا بہت سا کلام نقل کیا ہے، ہم صرف ایک دوہے پر اکتفا کرتے ہیں۔

چکہ جوگی کنتھا گرین، ارن، سیام اور سیت (آنکھ، گلا، سرخ، سیاہ، سفید)

آنسو بوند سمرن لیں درسن بھچا ہیت (قطرہ، تسبیح، دیدار، خیرات)

یعنی آنکھیں ایک ریاضت کش جوگی ہیں، جوسرخ، سیاہ اور سفید دانوں کا مالا پہنے ہوئے اور آنسوؤں کی تسبیح لئے ہوئے دیدار کی بھیک کی طالب ہیں۔

ان بزرگوں کے سوا اوربہت سے اہل کمال گزرے ہیں جنہوں نے بھاشا زبان کی انشا پردازی اور شاعری میں نام وری حاصل کی، اور جن کے حالات مختلف تذکروں میں مل سکتے ہیں۔ کیا ان واقعات کے بعد بھی ہمارے ہندو دوست کا یہ بیان قابل تسلیم ہے کہ مسلمانوں نے کبھی ہندو لٹریچر پر توجہ نہیں کی۔ اور جو کرنا چاہتا تھا وہ کافر قرار پاتا تھا۔ ہمارے ہندو دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں سے زیادہ بے تعصب قوم، نہ صرف دنیا کی پچھلی تاریخ بلکہ موجودہ اور آئندہ زمانہ بھی قیامت تک نہ پیش کرسکے گا۔

حاشیے (۱) میر حسن مصنف بدر منیر کا تذکرہ شعرا ہمارے کتب خانے میں موجود ہے۔ (۲) یہ بات جتا دینے کے قابل ہے کہ مولوی غلام آزاد نے سرو آزاد جو تذکرہ لکھا اس سے دو حصے کئے۔ ایک فارسی شعرا کے ذکر میں اور دوسرے ہندی یعنی بھاشا کہنے والوں کے حالات میں، اس دوسرے حصے کی تمہید میں لکھتے ہیں، ’’فصل ثانی در ذکر قافیہ سنجان ہندی جزاہم اللہ بجائزۃ الخیر من ہیچمدان با زبان عربی و فارسی و ہندی آشنائیم و از ہر سہ میکدہ بقدر حوصلہ قدمے می پیمایم، مشق سخن ہندی ہر چند اتفاق نیفتاد، اما سامعہ راز نوائے طوطیان ہند حظے وافر است و ذائقہ راز چاشنی شکر فروشاں ایں گل زمیں نصیبے متکاثر، افسوس خوانان ہند ہم دریں مادی پائے کمی ندارند بلکہ درفن نایکا بید قدم سحرسازی پیش می گزارند، موزونان زبان ہندی در بلگرام فراوان جلوہ نمودہ اند، لہٰذا فصل ایں جماعہ علاحدہ بہ تحریر رسید و شمامہ معطرے بدست بوشناسان حوالہ گردید۔‘‘ پھر اس حصے کے خاتمہ میں لکھتے ہیں، ’’بہ اقتضائے ترتیبے کہ دریں تالیف اختیار افتادہ ختم کتاب بر نظم ہندی دست بہم دادہ چہ مضائقہ بعض الفاظ ہندی جزو فرقان عظیم است۔‘‘سرو آزاد کا یہ حصہ ہمارے دوست نواب نورالحسن خاں خلف اکبر جناب نواب صدیق الحسن خاں مرحوم نے اپنے تذکرہ طور کلیم میں شامل کر لیا، چنانچہ فروغ دوم میں جہاں سے ہندی شعرا کا تذکرہ ہے عبارت تمہیدی بھی وہی سرو آزاد کی ہے۔ میں اس مضمون میں بلگرامی شعرائے بھاکھا کا جو تذکرہ لکھوں گا اور ان کے اشعار نقل کروں گا وہ طور کلیم سے منقول ہوں گے، لیکن طور کلیم کا یہ حصہ در اصل سرو آزاد ہے۔ طور کلیم چھپ گیا ہے اور ہر جگہ ملتا ہے۔ اس لئے ناظرین کو وہ بہ آسانی ہاتھ آسکتا ہے۔ (۱) تزک جہانگیری مطبوعہ علی گڑھ ص۔۶۷


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.