بھرے موتی ہیں گویا تجھ دہن میں
بھرے موتی ہیں گویا تجھ دہن میں
کہ در ریزی تو کرتا ہے سخن میں
بہار آرا وہی ہے ہر چمن میں
اسی کی بو ہے نسرین و سمن میں
نہ پھر ایدھر ادھر ناحق بھٹکتا
کہ ہے وہ جلوہ گر تیرے ہی من میں
جہاں وہ ہے نہیں واں کفر و اسلام
عبث جھگڑا ہے شیخ و برہمن میں
ہوئی جاتی ہے پانی شرم سے شمع
مگر وہ ماہ آیا انجمن میں
چھڑایا تھا نپٹ مشکل سے پھر آہ
دل اٹکا اس کی زلف پر شکن میں
جنوں نے دست کاری ایسی بھی کی
نہ تھا گویا گریباں پیرہن میں
مرا جاتا ہے جس غیرت میں دریا
گرا کس کا ہے دل چاہ ذقن میں
مگر پروانہ جل کر ہو گیا خاک
کہ رو رو شمع جلتی ہے لگن میں
جو سنتے تھے دم عیسیٰ کا اعجاز
سو دیکھا ہم نے وہ تیرے سخن میں
نہ دیکھا اس پری جلوہ کو بیدارؔ
رہا مشغول تو یاں ما و من میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |