بھرے ہیں اس پری میں اب تو یارو سر بسر موتی

بھرے ہیں اس پری میں اب تو یارو سر بسر موتی
by نظیر اکبر آبادی

بھرے ہیں اس پری میں اب تو یارو سر بسر موتی
گلے میں کان میں نتھ میں جدھر دیکھو ادھر موتی

کوئی بندوں سے مل کر کان کے نرموں میں ہلتا ہے
یہ کچھ لذت ہے جب اپنا چھداتے ہیں جگر موتی

وہ ہنستے ہیں تو کھلتا ہے جواہر خانۂ قدرت
ادھر لعل اور ادھر نیلم ادھر مرجاں ادھر موتی

فلک پر دیکھ کر تارے بھی اپنا ہوش کھوتے ہیں
پہن کر جس گھڑی بیٹھے ہے وہ رشک قمر موتی

جو کہتا ہو ارے ظالم ٹک اپنا نام تو بتلا
تو ہنس کر مجھ سے یہ کہتی ہے وہ جادو نظر موتی

وہ دریا موتیوں کا ہم سے روٹھا ہو تو پھر یارو
بھلا کیونکر نہ برسا دے ہماری چشم تر موتی

نظیرؔ اس ریختے کو سن وہ ہنس کر یوں لگی کہنے
اگر ہوتے تو میں دیتی تجھے اک تھال بھر موتی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse