بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو

بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
by آرزو لکھنوی

بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو

رسمیں اس اندھیر نگر کی نئی نہیں یہ پرانی ہیں
مہر پہ ڈالو رات کا پردہ ماہ کو روشن رہنے دو

روح نکل کر باغ جہاں سے باغ جناں میں جا پہنچے
چہرے پہ اپنے میری نگاہیں اتنی دیر تو رہنے دو

خندۂ گل بلبل میں ہوگا گل میں نغمہ بلبل کا
قصہ ایک زبانیں دو ہیں آپ کہو یا کہنے دو

اتنا جنون شوق دیا کیوں خوف جو تھا رسوائی کا
بات کرو خود قابل شکوہ الٹے مجھ کو رہنے دو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse