بھوکے پیٹ
رکتی سانسیں ہیں اور سینا
موت کے پاؤں تلے ہے جینا
اوگھٹ گھاٹ بھنور کے چکر
ڈگ مگ ہے جیون کا سفینہ
غم اور آنسو آنسو اور غم
غم کھانا اور آنسو پینا
برکھا رت ویرانوں کی ہے
چاندنی قبرستانوں کی ہے
من میں لہر کبھی اٹھتی تھی
بات یہ اب افسانوں کی ہے
جیسے سائے رینگ رہے ہوں
حالت یہ انسانوں کی ہے
ہم سے غافل تقدیریں ہیں
بے دست و پا تدبیریں ہیں
خشک لبوں کی مردہ آہیں
بھوکے پیٹ کی تفسیریں ہیں
کیسے کہیں ہم بھی جیتے تھے
اب تو بے جاں تصویریں ہیں
جیتے ہیں اور مر نہیں سکتے
بے بس ہیں کچھ کر نہیں سکتے
پھولوں کی خوشبو آتی ہے
دامن ان سے بھر نہیں سکتے
دنیا دنیا کہنے والے
دنیا اپنی کر نہیں سکتے
سب کا پالنہار کدھر ہے
دنیا اس کا ہی تو ہنر ہے
بنے کھلونے ٹوٹ رہے ہیں
اف یہ گھروندا زیر و زبر ہے
کچھ روتے ہیں کچھ ہنستے ہیں
اور پھر دونوں کا یہ گھر ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |