بہاریں لٹا دیں جوانی لٹا دی
بہاریں لٹا دیں جوانی لٹا دی
تمہارے لیے زندگانی لٹا دی
صبا نے تو برسائے گل فصل گل میں
گھٹا نے مئے ارغوانی لٹا دی
اداؤں پہ کر دی فدا ساری ہستی
نگاہوں پہ دنیائے فانی لٹا دی
عجب دولت حسن پائی تھی دل نے
نہ مانی مری اک نہ مانی لٹا دی
نہ کھونا تھا غفلت میں عہد جوانی
عجب رات تھی یہ سہانی لٹا دی
نہ کی حسن کی قدر اے ماہ کامل
فقط رات بھر میں جوانی لٹا دی
حسینوں نے رنگنیئی خواب شیریں
سنی جب ہماری کہانی لٹا دی
عجب حوصلہ ہم نے غنچہ کا دیکھا
تبسم پہ ساری جوانی لٹا دی
جلیلؔ آپ کی شاعری پر کسی نے
نگاہوں کی جادو بیانی لٹا دی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |