بہار آئی بتنگ آیا دل وحشت پناہ اپنا
بہار آئی بتنگ آیا دل وحشت پناہ اپنا
کروں کیا ہے یہی چاک گریباں دستگاہ اپنا
ٹپکتی جو طرح سنبل سے ہووے پے بہ پے شبنم
ہمارے حال پر رونے لگا اب دود آہ اپنا
مرا دل لیتے ہی کر چشم پوشی مجھ سے منہ پھیرا
نظر آتا نہیں کچھ مجھ کو دلبر سے نباہ اپنا
ستم سے دی تسلی اس کماں ابرو کے قرباں ہوں
رگ جاں کر دیا دل کو مرے تیر نگاہ اپنا
تو ہرجائی نہ ہو گھٹ جائے گا جوں زر عیاروں میں
یہ عزلتؔ بندہ اپنا فدوی اپنا خیر خواہ اپنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |