بہار آئی ہے پھر وحشت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
بہار آئی ہے پھر وحشت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
مرے سینے میں داغوں کے گلستاں ہوتے جاتے ہیں
مجھے بچپن کر کے دل دہی بھی ہوتی جاتی ہے
جفائیں کرتے جاتے ہیں پشیماں ہوتے جاتے ہیں
کہاں جاتا ہے اے دل شکوۂ مہر و وفا کرنے
وہاں بیداد کرنے کے بھی احساں ہوتے جاتے ہیں
نسیمؔ زندہ دل مرنے لگے ہیں خوب رویوں پر
غضب ہے ایسے دانش مند ناداں ہوتے جاتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |