بہار آئی ہے پھر وحشت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں

بہار آئی ہے پھر وحشت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
by نسیم بھرتپوری
323698بہار آئی ہے پھر وحشت کے ساماں ہوتے جاتے ہیںنسیم بھرتپوری

بہار آئی ہے پھر وحشت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
مرے سینے میں داغوں کے گلستاں ہوتے جاتے ہیں

مجھے بچپن کر کے دل دہی بھی ہوتی جاتی ہے
جفائیں کرتے جاتے ہیں پشیماں ہوتے جاتے ہیں

کہاں جاتا ہے اے دل شکوۂ مہر و وفا کرنے
وہاں بیداد کرنے کے بھی احساں ہوتے جاتے ہیں

نسیمؔ زندہ دل مرنے لگے ہیں خوب رویوں پر
غضب ہے ایسے دانش مند ناداں ہوتے جاتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse