بہار آئی ہے پھر چمن میں نسیم اٹھلا کے چل رہی ہے
بہار آئی ہے پھر چمن میں نسیم اٹھلا کے چل رہی ہے
ہر ایک غنچہ چٹک رہا ہے گلوں کی رنگت بدل رہی ہے
وہ آ گئے لو وہ جی اٹھا میں عدو کی امید یاس ٹھہری
عجب تماشا ہے دل لگی ہے قضا کھڑی ہاتھ مل رہی ہے
بتاؤ دل دوں نہ دوں کہو تو عجیب نازک معاملہ ہے
ادھر تو دیکھو نظر ملاؤ یہ کس کی شوخی مچل رہی ہے
تڑپ رہا ہوں یہاں میں تنہا وہاں عدو سے وہ ہم بغل ہیں
کسی کے دم پر بنی ہوئی ہے کسی کی حسرت نکل رہی ہے
گھٹا وہ چھائی وہ ابر اٹھا یہی تو ہے وقت مے کشی کا
بلاؤ شاعرؔ کو ہے کہاں وہ شراب شیشے سے ڈھل رہی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |