بہار آدھی گزر گئی ہائے ہم قیدی ہیں زنداں کے

بہار آدھی گزر گئی ہائے ہم قیدی ہیں زنداں کے
by ولی عزلت

بہار آدھی گزر گئی ہائے ہم قیدی ہیں زنداں کے
گئے کچھ اور کچھ جاتے ہیں دن چاک گریباں کے

ہزاروں خوب رو گئے خاک میں گردش سے دوراں کے
جھلکتے رنگ میں دیکھو مقیش ریزے افشاں کے

گیا تو درد سر پر حسرت زخم دویم رہ گئی
وگرنہ ہم تری شمشیر کے مارے ہیں احساں کے

مرا لوہو بھی بعد از مرگ قاتل کے تصدق ہے
سنجاف سرخ مت سمجھے کوئی گرد اس کے داماں کے

ہوا ہے داغ بے قدری سے ان کی مشت خوں میرا
پڑے کوئلے ہی کب مہندی میں دست و پائے خوباں کے

جنوں سے خاک ہو گئے پر بھی عاشق ہات ملتے ہیں
بگولے سارے میں اٹکل کیا عزلتؔ بیاباں کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse