بہار باغ ہو مینا ہو جام صہبا ہو
بہار باغ ہو مینا ہو جام صہبا ہو
ہوا ہو ابر ہو ساقی ہو اور دریا ہو
روا ہے کہہ تو بھلا اے سپہر نا انصاف
ریائے زہد چھپے راز عشق رسوا ہو
بھرا ہے اس قدر اے ابر دل ہمارا بھی
کہ ایک لہر میں روئے زمین دریا ہو
جو مہرباں ہیں وہ سوداؔ کو مغتنم جانیں
سپاہی زادوں سے ملتا ہے دیکھیے کیا ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |