بہت سے مدعی نکلے مگر جاں باز کم نکلے
بہت سے مدعی نکلے مگر جاں باز کم نکلے
پس مجنوں ہزاروں عاشقوں میں ایک ہم نکلے
نہیں ممکن کسی سے حسن کی باریکیاں حل ہوں
ترے ہر تار گیسو میں ہمارے پیچ و خم نکلے
یہ صورت ہو تو اپنا خاتمہ بالخیر ہو جائے
ادھر ہم سر جھکائیں اور ادھر تیغ دو دم نکلے
ہمیں ارمان ہے اس آستاں پر زندگی گزرے
اسی حسرت میں جیتے ہیں کہ ان قدموں پہ دم نکلے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |