بہ چشم حقیقت جہاں دیکھتا ہوں
بہ چشم حقیقت جہاں دیکھتا ہوں
میں جاناں کا جلوہ عیاں دیکھتا ہوں
یہ جو کچھ کہ ظاہر ہے سب نور حق ہے
میں حق دیکھتا ہوں جہاں دیکھتا ہوں
بہر رنگ و ہر شے و ہر جا و ہر سو
تجھی کو میں جلوہ کناں دیکھتا ہوں
ہر اک قطرۂ بحر کثرت میں یارو
میں دریائے وحدت رواں دیکھتا ہوں
جہاں دیکھتا ہوں میں جلوہ ہے تیرا
ترے غیر کو میں زیاں دیکھتا ہوں
یہ تاثیر ہے راز الفت کا دل پر
چو شادی و غم ایک ساں دیکھتا ہوں
بجز ذات مرشد وہاں کچھ نہ پایا
میں شیخ و برہمن یہاں دیکھتا ہوں
کھلا مجھ پہ ہے جب سے سر حقیقت
میں اپنے تئیں خود گماں دیکھتا ہوں
ہوا فیض خادم صفیؔ سے یہ آثمؔ
کہ سب شان مولیٰ عیاں دیکھتا ہوں
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |