بہ چمن اب وہ کیا چاہے ہے مے نوش گزار
بہ چمن اب وہ کیا چاہے ہے مے نوش گزار
جلد اے پیک صبا گل کے یہ کر گوش گزار
نہیں معلوم کہاں جاتے ہیں جوں نشۂ مے
جدھر ان روزوں میں ہم کرتے ہیں مدہوش گزار
بزم میں مجھ کو جو دیکھا تو یہ جھنجھلا کے کہا
ایسی محفل میں کرے ہے مری پاپوش گزار
سرنگوں کوچۂ رسوائی میں ہیں آج تلک
سو خرابی سے جو اس در پہ کیا دوش گزار
عاشق اس پردہ نشیں کے ہیں کہ گر سامنے سے
کبھی گزرے ہے تو کرتا ہے وہ روپوش گزار
چند روزہ ہے یہ مے خانۂ ہستی یاں تو
عمر غفلت میں نہ اے بے خرد و ہوش گزار
آ پھنسا عشوہ و انداز و ادا میں یوں دل
رہزنوں میں کرے جوں راہ فراموش گزار
ہم سفر ہیں تو یہ حسرت ہے کہ کیجے کوسوں
اک سواری میں ہوئے اس سے ہم آغوش گزار
قدرداں کوئی سخن کا نہ رہا اے جرأتؔ
کنج تنہائی میں اوقات تو خاموش گزار
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |