بیٹھے ہیں اب تو ہم بھی بولو گے تم نہ جب تک

بیٹھے ہیں اب تو ہم بھی بولو گے تم نہ جب تک
by نظیر اکبر آبادی

بیٹھے ہیں اب تو ہم بھی بولو گے تم نہ جب تک
دیکھیں تو آپ ہم سے ناخوش رہیں گے کب تک

اقرار تھا سحر کا ایسا ہوا سبب کیا
جو شام ہونے آئی اور وہ نہ آیا اب تک

محفل میں گل رخوں کے آیا جو وہ پری رو
ہو شکل حیرت اس کی صورت رہے وہ سب تک

بوسہ نظیرؔ ہم کو دینے کہا تھا اس نے
ہم وقت پا کے جس دم لینے کی پہنچے ڈھب تک

ہر چند تھا نشے میں وہ شوخ تو بھی اس نے
ہرگز ہمارے لب کو آنے دیا نہ لب تک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse