بیٹھ جا کر سر منبر واعظ

بیٹھ جا کر سر منبر واعظ
by جلیل مانکپوری

بیٹھ جا کر سر منبر واعظ
ہو گیا تو تو مرے سر واعظ

مے تو جائز نہیں یہ جائز ہے
روز کھاتا ہے مرا سر واعظ

بند کرتا ہے در توبہ کیوں
کھول کر وعظ کا دفتر واعظ

واعظوں کی میں کروں کیا تعریف
گھر میں مے خوار ہیں باہر واعظ

میکشوں ہی کے لئے ہے یہ بات
جو ہے دل میں وہی لب پر واعظ

دیکھ کس رنگ سے اٹھی ہے گھٹا
تہہ کر اب وعظ کا دفتر واعظ

کس طرح پیتے ہیں پینے والے
دیکھ لینا لب کوثر واعظ

موت بھی آتی ہے تو حیلے سے
آ گیا رندوں میں کیوں کر واعظ

سختیاں رندوں پہ کرتے کرتے
عقل پر پڑ گئے پتھر واعظ

آتش تر کا جو پڑ جائے مزہ
پھونک دے وعظ کا دفتر واعظ

رند آپے سے جو باہر ہیں تو ہوں
تو نہ ہو جامے سے باہر واعظ

شیشۂ دل کا خدا حافظ ہے
تیری ہر بات ہے پتھر واعظ

ذکر مے وعظ میں جب آتا ہے
جھومتا ہے سر منبر واعظ

لے کے آنکھوں سے لگاتا ساغر
پڑھ جو لیتا خط ساغر واعظ

محفل وعظ میں کیوں جاؤں جلیلؔ
ہیں مجھے شیشہ و ساغر واعظ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse