بیگمات اودھ کے خطوط/تقریظ


تقریظ

باسمہ سبحانہ

اردو زبان کے سلسلے میں لکھنؤ کو ایک خاص امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ وہاں کی ٹکسالی زبان کا دار و مدار "صنف نازک" کے دو طبقات پر رہا ہے۔ بیگمات اور مہترانیاں۔ کسی محاورے کی تحقیق کے سلسلے میں تمام اہلِ فن انھیں کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں۔ ہمارے یوپی کے مایہ ناز ادیب و محقق رفیق محترم مفتی محمد انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی اہلِ ادب کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ "بیگمات اودھ کے خطوط" جیسا گراں مایہ ذخیرہ حاصل کرنے میں نہ صرف کامیاب ہو گئے ہیں بلکہ اسے شائع کر کے ادبی خزانے میں ایک بیش قیمت سرمایہ کا اضافہ کر رہے ہیں۔ آپ کا خاندانی کتب خانہ بیش بہا نسخوں کا مجموعہ ہے۔ کیونکہ آپ اُس علمی گھرانے کی یادگار سے ہیں جس میں اعلم العلما مُلّا وحید الدین مولف فتاوی عالم گیری، علامہ قاضی مبارک شارح مسلم اور افضل العلماء قاضی ارتضیٰ علی خاں بہادر قاضی القضاۃ مدراس اور مفتی انعام اللہ خاں بہادر مفتی محکمۂ شرعیہ دہلی سے نامور اور باکمال بزرگ گذرے ہیں۔ وراثتاً یہ سرمایہ انھیں حضرات سے ہمارے مفتی صاحب تک پہنچا ہے۔ اس میں اس قسم کے بعض نوادر بھی ملتے ہیں۔ یہ خطوط بھی انھی نادرات کی ایک کڑی ہے۔

اس قسم کے خطوط کی اہمیت کا اندازہ مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی مرحوم ایڈیٹر دلگداز کی "آپ بیتی" کی اس عبارت سے ہو سکتا ہے:

"مجھے فارسی عاشقانہ عبارت آرائی کے شوق میں یہاں بیت الاجرا واجد علی شاہ میں حسن و عشق کا ایک نہایت ہی دلچسپ مشغلہ ہاتھ آ گیا۔ بادشاہ کے نام محلات عالیات اور بیگمات جو خطوط بھیجا کرتیں وہ خطوط بادشاہ کے ملاحظے کے بعد اسی دفتر بیت الاجرا میں محفوظ رکھے جاتے۔ یہ خط جو تودد نامے کہلاتے، علی العموم سُرخ اور پُر افشاں کاغذ پر ہوتے اور عموماً عاشقانہ انداز سے رنگین عبارت میں لکھے جاتے۔ ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہوگی جن کو میں نے پڑھنا شروع کیا۔ مجھے ان میں بڑا لطف آیا۔ افسوس کہ وہ نایاب ذخیرہ خدا جانے کہاں گم ہو گیا۔ آج موجود ہوتا تو شائع کرنے کے قابل تھا۔ اس لیے کہ اس میں جتنے خطوط تھے "بیگمات" کے انشا پردازوں کے لکھے ہوئے تھے اور نہایت زورِ قلم دے کر رنگین عبارتوں میں لکھے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ہر ایک خط میں ایک جداگانہ جدت طرازی اور تازگی تھی۔ بہرحال میری انشا پردازی کا پہلا نصاب یہی تودد نامے تھے جو ظاہری صورت اور باطنی رنگِ عبارت دونوں حیثیتوں سے بہت ہی دلکش تھے۔"

(دلگداز جون 33ء صفحہ 133)

ان خطوط کے القاب و آداب اور عبارتوں کا بعد مطالعہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس قدر اچھوتے انداز سے لکھے گئے ہیں۔ یہ واقعات حقیقت میں ادب اردو کے لیے سرمایۂ افتخار ہیں۔ ان میں بڑی خصوصیت یہ ہے کہ محلاتی زبان ہے۔ روز مرہ کے نہایت فصیح محاورے، ٹھیٹ ٹکسالی اور اسلوب بیان حد درجہ سادہ اور دل فریب ہے۔ چونکہ عموماً زیادہ واقعات فراق زدہ بیگمات کے لکھے ہوئے ہیں اس لیے نہایت درد انگیز ہیں۔ مکرر رفیق محترم موصوف کا قلبی اعتراف کہ آپ کی وجہ سے یہ نادر تحفہ اہلِ علم کے مطالعہ کے لیے دنیاے اردو میں آیا۔

محمد عبد الشاہد خاں شروانی

مصنف "باغی ہندوستان"

(سوانح علامہ فضل حق خیر آبادی و حالات انقلاب سنہ 57ء)

24 محرم الحرام

1366ھ