بی مینڈکی
بادل اٹھا اور چھا گیا
ساون کا مینہ برسا گیا
جنگل میں جل تھل ہو گیا
نہروں میں پانی آ گیا
اور آ گئیں بی مینڈکی
بچوں نے جب دیکھا انہیں
سبزے پہ لپکے گھیر کر
بی مینڈکی نے جس گھڑی
دیکھا انہیں منہ پھیر کر
گھبرا گئیں بی مینڈکی
بھاگیں کبھی اچھلیں کبھی
دوڑیں کبھی اچکیں کبھی
لپکیں کبھی کودیں کبھی
پھاندیں کبھی پھدکیں کبھی
تنگ آ گئیں بی مینڈکی
سبزے کے اندر چھپ رہیں
جب تھک گئیں اکتا گئیں
بچوں کے ہاتھوں سے مگر
جاتیں کہاں ہاتھ آ گئیں
ہاتھ آ گئیں بی مینڈکی
مردہ بنی تھیں مکر سے
بچے یہ سمجھے مر گئیں
تنگ آ کے ان کے ظلم سے
دنیا سے رحلت کر گئیں
کام آ گئیں بی مینڈکی
پھینکا پکڑ کر ایک نے
بی مینڈکی کو نہر میں
بی مینڈکی نے آپ کو
بہتا جو پایا لہر میں
لہرا گئیں بی مینڈکی
پیاسی جو تھیں کچھ دیر سے
سیروں ہی پانی پی گئیں
پھر لپکیں خشکی کی طرف
بچوں نے دیکھا جی گئیں
اور آ گئیں بی مینڈکی
چپکے سے اک لڑکا بڑھا
اور ہاتھ مارا زور سے
بی مینڈکی کا سر لگا
پتھر کی چبھتی کور سے
مرجھا گئیں بی مینڈکی
بی مینڈکی میں دم نہ تھا
دیکھا جو مٹھی کھول کر
بچوں نے چلا کر کہا
لو اب کے تو سچ مچ سفر
فرما گئیں بی مینڈکی
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |