بے خودی ہے حسرتوں کی بھیڑ چھٹ جانے کے بعد

بے خودی ہے حسرتوں کی بھیڑ چھٹ جانے کے بعد
by راغب بدایونی
318113بے خودی ہے حسرتوں کی بھیڑ چھٹ جانے کے بعدراغب بدایونی

بے خودی ہے حسرتوں کی بھیڑ چھٹ جانے کے بعد
آپ ہی گم ہو گئے ہم راستہ پانے کے بعد

میں ہوں وہ شعلہ بھڑکتا ہے جو بجھ جانے کے بعد
میں ہوں ایسا پھول کھلتا ہے جو مرجھانے کے بعد

مل گئے ہم خاک میں پردے کے اٹھ جانے کے بعد
کچھ نظر آنے سے پہلے کچھ نظر آنے کے بعد

کس طرح جلوے کو دیکھا دیکھ کر کیا ہو گیا
دیکھنے والوں کو دیکھو جلوہ دکھلانے کے بعد

موت ہے جس کی سزا یہ زندگی ہے وہ گناہ
ان بلاؤں سے ملے گا امن مر جانے کے بعد

یوں تو پردے ہی میں رہتی ہے تمہیں سب کی خبر
کاش دیکھو پردے سے باہر نکل آنے کے بعد

دیکھ کر مایوس دل کو دیکھتا ہوں سوئے عرش
لا مکاں ہی سوجھتا ہے ایسے ویرانے کے بعد

چھوڑ کر طوف حرم ہے کیا پشیمانی مجھے
گردش قسمت میں اپنے آپ آ جانے کے بعد

ان کے روضے سے مجھے کیوں لے چلی ہے سوئے خلد
اے اجل کیوں کر جیوں گا اس کے چھٹ جانے کے بعد

کیا ہو ادراک تجلی سے وہ بے خود کامیاب
جان سے جانا ہوں جس کو ہوش میں آنے کے بعد

ہائے یہ اپنی جوانی اور یہ بخت سیاہ
یہ اندھیری کوٹھری پھر رات ہو جانے کے بعد

تو نے اے ساقی کیا اندازۂ مستی غلط
یوں ہی دیتا جا مجھے پیمانہ پیمانے کے بعد

مرگ پر آمادہ تیری سرد مہری نے کیا
نیند مجھ کو آ گئی ٹھنڈی ہوا کھانے کے بعد

جذب الفت ہی سے پیدا ہوتی ہے شکل کشش
ورنہ کیوں جذب نظر ہو کچھ نظر آنے کے بعد

اپنے جلوہ کے کرشمے یہ مرا ذوق نگاہ
تم ذرا دیکھو مری آنکھوں میں پھر جانے کے بعد

وہ عطائے اول ساقی بھی راغبؔ خوب تھی
ہم نے لاکھوں خم چڑھائے ایک پیمانے کے بعد


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.