بے خودی ہے حسرتوں کی بھیڑ چھٹ جانے کے بعد

بے خودی ہے حسرتوں کی بھیڑ چھٹ جانے کے بعد
by راغب بدایونی

بے خودی ہے حسرتوں کی بھیڑ چھٹ جانے کے بعد
آپ ہی گم ہو گئے ہم راستہ پانے کے بعد

میں ہوں وہ شعلہ بھڑکتا ہے جو بجھ جانے کے بعد
میں ہوں ایسا پھول کھلتا ہے جو مرجھانے کے بعد

مل گئے ہم خاک میں پردے کے اٹھ جانے کے بعد
کچھ نظر آنے سے پہلے کچھ نظر آنے کے بعد

کس طرح جلوے کو دیکھا دیکھ کر کیا ہو گیا
دیکھنے والوں کو دیکھو جلوہ دکھلانے کے بعد

موت ہے جس کی سزا یہ زندگی ہے وہ گناہ
ان بلاؤں سے ملے گا امن مر جانے کے بعد

یوں تو پردے ہی میں رہتی ہے تمہیں سب کی خبر
کاش دیکھو پردے سے باہر نکل آنے کے بعد

دیکھ کر مایوس دل کو دیکھتا ہوں سوئے عرش
لا مکاں ہی سوجھتا ہے ایسے ویرانے کے بعد

چھوڑ کر طوف حرم ہے کیا پشیمانی مجھے
گردش قسمت میں اپنے آپ آ جانے کے بعد

ان کے روضے سے مجھے کیوں لے چلی ہے سوئے خلد
اے اجل کیوں کر جیوں گا اس کے چھٹ جانے کے بعد

کیا ہو ادراک تجلی سے وہ بے خود کامیاب
جان سے جانا ہوں جس کو ہوش میں آنے کے بعد

ہائے یہ اپنی جوانی اور یہ بخت سیاہ
یہ اندھیری کوٹھری پھر رات ہو جانے کے بعد

تو نے اے ساقی کیا اندازۂ مستی غلط
یوں ہی دیتا جا مجھے پیمانہ پیمانے کے بعد

مرگ پر آمادہ تیری سرد مہری نے کیا
نیند مجھ کو آ گئی ٹھنڈی ہوا کھانے کے بعد

جذب الفت ہی سے پیدا ہوتی ہے شکل کشش
ورنہ کیوں جذب نظر ہو کچھ نظر آنے کے بعد

اپنے جلوہ کے کرشمے یہ مرا ذوق نگاہ
تم ذرا دیکھو مری آنکھوں میں پھر جانے کے بعد

وہ عطائے اول ساقی بھی راغبؔ خوب تھی
ہم نے لاکھوں خم چڑھائے ایک پیمانے کے بعد

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse