بے سبب ہاتھ کٹاری کو لگانا کیا تھا
بے سبب ہاتھ کٹاری کو لگانا کیا تھا
قتل عشاق پہ بیڑا یہ اٹھانا کیا تھا
سر پہ اپنے تو نہ لے خون اب اک عالم کا
فندق ہائے نگاریں کو دکھانا کیا تھا
سر بلندی کو یہاں دل نے نہ چاہا منعم
ورنہ یہ خیمۂ افلاک پرانا کیا تھا
اس لئے چین جبیں موج رہے ہے ہر دم
اے حباب لب جو آنکھ چرانا کیا تھا
ساقیا اپنی بلا سے جو گھٹا اٹھی ہے
دے کے اک جرعۂ مے دل کو گھٹانا کیا تھا
سرزمیں زلف کی جاگیر میں تھی اس دل کی
ورنہ اک دام کا پھر اس میں ٹھکانا کیا تھا
کہہ غزل دوسری اس بحر میں ایک اور نصیرؔ
یک قلم لکھنے سے اب ہاتھ اٹھانا کیا تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |