بے سود ہے یہ جوش گریہ اے شمع سحر ہو جانے تک
بے سود ہے یہ جوش گریہ اے شمع سحر ہو جانے تک
چھینٹا ترے اشک پیہم کا پہنچا نہ کبھی پروانے تک
اے اہل نظر میری ہستی سب کچھ تھی کبھی اب کچھ بھی نہیں
زندہ ہوں مگر مہمان بقا اک سانس کے آنے جانے تک
ہاں غور سے اک خوددار نظر اپنے ہی گریباں پر ناصح
کیا جانے رہے گا کس حد میں دیوانہ ترے سمجھانے تک
اے خاک پریشاں کے ذرو آغوش میں تم مجھ کو لے لو
تمکین و خودی کو ٹھکراتا پہنچا ہوں میں ویرانے تک
آشفتہ نظام ہستی ہے کچھ اور نہ برہم ہو جائے
مشاطہ فطرت کے ہاتھوں گیسوئے بتاں سلجھانے تک
وعدہ ہے مگر کس عالم میں اک شوخ تغافل فطرت کا
جب لیلئ شب کے بل کھاتے گیسو اتر آئیں شانے تک
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |