بے شغل نہ زندگی بسر کر
بے شغل نہ زندگی بسر کر
گر اشک نہیں تو آہ سر کر
دے طول امل نہ وقت پیری
ہوئی صبح فسانہ مختصر کر
کچھ طرفہ مرض ہے زندگی بھی
اس سے جو کوئی چھٹا سو مر کر
کعبہ کے سفر میں کیا ہے زاہد
بن جائے تو آپ سے سفر کر
کیا دیکھے ہے آئینہ کو پیارے
ایدھر بھی تو ایک دم نظر کر
وہ باعث زیست شاید آ جائے
اے جان تو جائیو ٹھہر کر
فرصت ہے غنیمت آج غافل
جو ہو سکے نفع یا ضرر کر
یہ دہر ہے کارگاہ مینا
جو پاؤں رکھے تو یاں سو ڈر کر
تعمیر پہ گھر کی مر نہ اے دل
قائمؔ کی طرح دلوں میں گھر کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |