بے مروت بے وفا نامہرباں نا آشنا
بے مروت بے وفا نامہرباں نا آشنا
جس کے یہ اوصاف کوئی اس سے ہو کیا آشنا
تنگ ہو سائے سے اپنے جس کو ہو نا آشنا
وہ بت وحشی طبیعت کس کا ہوگا آشنا
واہ واہ اے دل بر کج فہم یوں ہی چاہئے
ہم سے ہو نا آشنا غیروں سے ہونا آشنا
بد مزاجی ناخوشی آزردگی کس واسطے
گر برے ہم ہیں تو ہو جئے اور سے جا آشنا
یہ ستم یہ درد یہ غم اور الم مجھ پر ہوا
کاش کہ تجھ سے میں اے ظالم نہ ہوتا آشنا
نے ترحم نے کرم نے مہر ہے اے بے وفا
کس توقع پر بھلا ہو کوئی تیرا آشنا
آشنا کہنے کو یوں تو آپ کے ہوویں گے سو
پر کوئی اے مہرباں ایسا نہ ہوگا آشنا
خیر خواہ و مخلص و فدوی جو کچھ کہئے سو ہوں
عیب کیا ہے گر رہے خدمت میں مجھ سا آشنا
آشنائی کی توقع کس سے ہو بیدارؔ پھر
ہو گیا بیگانہ جب ایسا ہی اپنا آشنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |