بے نیاز ہر تمنا ہو گیا
بے نیاز ہر تمنا ہو گیا
عشق میں اب حسن پیدا ہو گیا
درد دل خود ہی مسیحا ہو گیا
مر گیا بیمار اچھا ہو گیا
دل میں کوئی تو ادائے خاص تھی
جلوہ خود محو تماشا ہو گیا
اے نگاہ لطف پردہ چاہیے
سوز دل ساز تمنا ہو گیا
میری خاموشی فسانہ بن گئی
خود لب خاموش گویا ہو گیا
پائمالی میں نہاں تھی زندگی
دل مٹا مٹ کر تمنا ہو گیا
سامنے ہیں اور نظر آتے نہیں
جلوہ خود آنکھوں کا پردہ ہو گیا
اس ادا سے آج اٹھی وہ نظر
میں بھری محفل میں رسوا ہو گیا
مسکرا کر تم نے کیوں دیکھا مجھے
بجلیوں کو اک بہانہ ہو گیا
اس طرح جلوہ دکھاتے ہیں کہیں
ہر تماشائی تماشا ہو گیا
ہو گئی خاموش شمع زندگی
ختم سب دل کا فسانہ ہو گیا
جو گرا دامن پہ آنسو اے منیرؔ
آئنہہ دار تمنا ہو گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |