بے وجہ نئیں ہے آئنہ ہر بار دیکھنا
بے وجہ نئیں ہے آئنہ ہر بار دیکھنا
کوئی دم کو پھولتا ہے یہ گل زار دیکھنا
نرگس کی طرح خاک میری اگیں ہیں چشم
ٹک آن کے یہ حسرت دیدار دیکھنا
کھینچے تو تیغ ہے حرم دل کے صید پر
اے عشق پر بھلا تو مجھے مار دیکھنا
ہے نقص جان دید ترا پر یہی ہے دھن
جی جاؤ یار ہو مجھے یک بار دیکھنا
اے طفل اشک ہے فلک ہفتمیں پہ عرش
آگے قدم نہ رکھیو تو زنہار دیکھنا
پوچھے خدا سبب جو مرے اشتیاق کا
میری زباں سے ہو یہی اظہار دیکھنا
ہر نقش پا پہ تڑپے ہے یارو ہر ایک دل
ٹک واسطے خدا کے یہ رفتار دیکھنا
کرتا تو ہے تو آن کے سوداؔ سے اختلاط
کوئی لہر آ گئی تو مرے یار دیکھنا
تجھ بن عجب معاش ہے سوداؔ کا ان دنوں
تو بھی ٹک اس کو جا کے ستم گار دیکھنا
نے حرف و نے حکایت و نے شعر و نے سخن
نے سیر باغ و نے گل و گلزار دیکھنا
خاموش اپنے کلبۂ احزاں میں روز و شب
تنہا پڑے ہوئے در و دیوار دیکھنا
یا جا کے اس گلی میں جہاں تھا ترا گزر
لے صبح تا بہ شام کئی بار دیکھنا
تسکین دل نہ اس میں بھی پائی تو بہر شغل
پڑھنا یہ شعر گر کبھو اشعار دیکھنا
کہتے تھے ہم نہ دیکھ سکیں روز ہجر کو
پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |