بے چین جو رکھتی ہے تمہیں چاہ کسو کی
بے چین جو رکھتی ہے تمہیں چاہ کسو کی
شاید کہ ہوئی کارگر اب آہ کسو کی
اس چشم کا غمزہ جو کرے قتل دو عالم
گوشے کو نگہ کے نہیں پرواہ کسو کی
زلفوں کی سیاہی میں کچھ اک دام تھے اپنے
قسمت کہ ہوئی رات وہ تنخواہ کسو کی
کیا مصرف بے جا سے فلک کو ہے سروکار
وہ شے کسو کو دے جو ہو دل خواہ کسو کی
دنیا سے گزرنا ہی عجب کچھ ہے کہ جس میں
کوئی نہ کبھو روک سکے راہ کسو کی
چھینے سے غم عشق شکیبائی و آرام
اے دل یہ پڑی لٹتی ہے بنگاہ کسو کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |