تاب نہیں سکوں نہیں دل نہیں اب جگر نہیں

تاب نہیں سکوں نہیں دل نہیں اب جگر نہیں
by نوح ناروی
331282تاب نہیں سکوں نہیں دل نہیں اب جگر نہیںنوح ناروی

تاب نہیں سکوں نہیں دل نہیں اب جگر نہیں
اپنی نظر کدھر اٹھے کوئی ادھر ادھر نہیں

روز شب اٹھتے بیٹھتے ان کی زبان پر نہیں
کوئی نہیں کی حد نہیں شام نہیں سحر نہیں

کوئی یہاں سے چل دیا رونق بام و در نہیں
دیکھ رہا ہوں گھر کو میں گھر ہے مگر وہ گھر نہیں

اتنی خبر تو ہے ضرور لے گئے دل وہ چھین کر
کیا ہوا اس کا پھر مآل اس کی مجھے خبر نہیں

کیوں وہ ادھر ادھر پھرے کیوں یہ حدود میں رہے
تیری نظر تو ہے نظر میری نظر نظر نہیں

مجھ سے بگڑ کر اپنے گھر جائیے خیر جائیے
آپ نے یہ سمجھ لیا آہ میں کچھ اثر نہیں

دیر کو ہم گھٹائیں کیوں کعبہ کو ہم بڑھائیں کیوں
کیا ہے خدا کا گھر یہی کیا وہ خدا کا گھر نہیں

پردے سے باہر آئیے رخ سے نقاب اٹھائیے
تاب جمال لا سکے اتنی مری نظر نہیں

مجھ کو خیال روز و شب خاک رہے مزار میں
ایسی جگہ ہوں جس جگہ شام نہیں سحر نہیں

تیغ کہو سناں کہو قہر کہو بلا کہو
اہل نظر کی راے میں ان کی نظر نظر نہیں

ڈر گئے اہل انجمن تیر جو آپ کا چلا
اس نے کہا ادھر نہیں اس نے کہا ادھر نہیں

روز کے غم نے اس طرح خوگر ضبط غم کیا
درد ہمارے دل میں ہے شکوہ زبان پر نہیں

پوچھتے ہیں وہ حال دل طول سخن سے فائدہ
سو کی یہ ایک بات ہے کہہ دوں مجھے خبر نہیں

ان میں کچھ اور بات تھی ان میں کچھ اور بات ہے
حضرت نوحؔ کا گماں حضرت نوح پر نہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.