تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں

تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں
by مومن خان مومن

تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں
بیچارگی سے جان پڑی کس عذاب میں

بے نالہ منہ سے جھڑتے ہیں بے گریہ آنکھ سے
اجزائے دل کا حال نہ پوچھ اضطراب میں

چرخ و زمیں میں توبہ کا ملتا نہیں سراغ
ہنگامۂ بہار و ہجوم سحاب میں

اے زہرہ چہرہ دشمن منحوس کو نہ دیکھ
نالے بہیں گے خون کے اس فتح یاب میں

اتنی کدورت اشک میں حیراں ہوں کیا کہوں
دریا میں ہے سراب کہ دریا سراب میں

فکر مآل سے مے و شاہد رہے عزیز
پیری میں موت یاد تھی پیری شباب میں

تم نکلے بہر سیر تو نکلے گا مہر بھی
ہووے گا اجتماع شب ماہتاب میں

ڈوبی ہجوم اشک سے کشتی زمین کی
ماہی کو اضطراب ہوا جوش آب میں

کھولا جو دفتر گلہ اپنا زیاں کیا
گزری شب وصال ستم کے حساب میں

اے حشر جلد کر تہہ و بالا جہان کو
یوں کچھ نہ ہو امید تو ہے انقلاب میں

قاتل جفا سے باز نہ آیا وفا سے ہم
فتراک میں جو سر ہے تو جاں ہے رکاب میں

بازیچہ کر دیا ستم یار و جور چرخ
طفلی سے غلغلہ ہے مرا شیخ و شاب میں

مومنؔ یہ عالم اس صنم جاں فزا کا ہے
دل لگ گیا جہان سراسر خراب میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse