تازہ ہو دماغ اپنا تمنا ہے تو یہ ہے

تازہ ہو دماغ اپنا تمنا ہے تو یہ ہے
by حیدر علی آتش

تازہ ہو دماغ اپنا تمنا ہے تو یہ ہے
اس زلف کی بو سونگھئے سودا ہے تو یہ ہے

قینچی نہیں چلوائی مرے نامہ نے کس پر
پروار کبوتر ہو جو عنقا ہے تو یہ ہے

کچھ سرو کا رتبہ ہی نہیں قد سے ترے پست
شمشاد او صنوبر سے بھی بالا ہے تو یہ ہے

ملتا جو نہیں یار تو ہم بھی نہیں ملتے
غیرت کا اب اپنے بھی تقاضا ہے تو یہ ہے

اے نور نظر معجزۂ حسن سے تیرے
اندھے بھی کہیں گے کہ مسیحا ہے تو یہ ہے

محشر کو بھی دیدار کا پردہ نہ کرے یار
عاشق کو جو اندیشۂ فردا ہے تو یہ ہے

بینا ہوں جو آنکھیں تو رخ یار کو دیکھیں
نظارہ کے قابل جو تماشا ہے تو یہ ہے

مضموں دہن یار کا کیا فکر سے نکلے
لاحل جو معموں میں معما ہے تو یہ ہے

گہہ یاد صنم دل میں ہے گہہ یاد الٰہی
کعبہ ہے تو یہ ہے جو کلیسا ہے تو یہ ہے

معشوق و مے و خانۂ خالی و شب ماہ
عاشق کے لیے حاصل دنیا ہے تو یہ ہے

دیوانے نہ کیوں کر خل و زنجیر پہنتے
سرکار جنوں کا جو سراپا ہے تو یہ ہے

دل کے لیے ہے عشق تو دل عشق کی خاطر
مے ہے تو یہ ہے اور جو مینا ہے تو یہ ہے

دیوانۂ قد کے کبھی نالوں کو تو سنیے
ہنگامۂ محشر کا سا غوغا ہے تو یہ ہے

ثابت دہن یار دلیلوں سے کر آتشؔ
حجت کی جو شاعر کے لیے جا ہے تو یہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse