تا دشت عدم آہ رسا لے گئی مجھ کو
تا دشت عدم آہ رسا لے گئی مجھ کو
جب خاک ہوا میں تو ہوا لے گئی مجھ کو
کوسوں مئے گلگوں کی ہوا لے گئی مجھ کو
یہ لال پری گھر سے اڑا لے گئی مجھ کو
مدت سے نہ ملتی تھی کہیں راہ عدم کی
اس شوخ کے کوچے میں قضا لے گئی مجھ کو
تھا ضعف میں سودا کسی صحرائے جنوں کا
وحشت مرے گھر آ کے بلا لے گئی مجھ کو
جوہرؔ طرف کوچۂ جاناں جو گیا میں
کیا جانے کدھر کی یہ ہوا لے گئی مجھ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |